Monday, November 14, 2011

عبارت کی تشریح

Reference to Context
عبارت کی تشریح

notesvti.blogspot.com

فہرست مضامین

* گزرا ہوا زمانہ
* سومناتھ کی فتح
* رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
* سندھ میں علم و فضل
* نظریہ پاکستان
* سچی ہمدردی
* توصیف کا خواب
* بنتِ بہادر شاہ
* قرطبہ کا قاضی
* چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ
* ہاسٹل میں پڑھنا

__________________

Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

قرطبہ کا قاضی

حوالہ

پیش نظر عبارتسید امتیاز علی تاج کے ڈرامے قرطبہ کا قاضی سے لی گئی ہے۔
تعارفِ مصنف

امتیاز علی تاج اردو ڈرامہ نگاری کے سرتاج ہےں۔ انارکلی کا ڈرامہ لکھ کر انہوں نے اردو کے دیوان میں اپنے لئے ایک مستقل اور بلند مقام حاصل کرلیا۔ ان کے ریڈیو ڈراموں نے بھی ان کی مقبولیت مےں اضافہ کیا۔ وہ بڑے کامیاب مکالمہ نگار ہیں۔ ان کے ڈراموں میں دلکشی اور انسانی جذبات کی بڑی موثر ترجمانی ملتی ہے۔
تعارفِ سبق

اس ڈرامے میںمصنف نے یہ بتایا ہے کہ انصاف کا ترازو ہر خاص و عام، شاہ وگدا سب کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ اور انصاف کے معاملے میں کسی قسم کی رعایت نہ برتتے ہوئے جرم کرنے والے کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔

عبارت ۱

میری بوڑھی زبان سے اللہ تعالی کا عفوورحم کئی بار بولا لیکن ہر بار اس نے سننے والے کانوں کو بہرا پایا۔
تشریح

مندرجہ بالا جملے مےں حلاوہ قاضی سے زبیر کی معافی کی التجا کرتی ہے اور قاضی سے رحم اور عفودرگزر چاہتی ہے۔وہ اسے محبت و شفقت کا حوالہ دے کر باربار معافی مانگتی ہے جس سے اس نے زبیر کی پرورش کی تھی۔ مگر چونکہ قاضی ایک انصاف پسند انسان تھا اس لئے حلاوہ کی منت و سماجت اس کا دل موم نہ

کرسکی









Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

بنتِ بہادر شاہ

حوالہ

پیش نظر عبارتخواجہ حسن نظامی کے افسانے بنتِ بہادر شاہ سے لی گئی ہے۔
تعارفِ مصنف

خواجہ حسن نظامی اردو کے صاحبِ طرز نثرنگار ہیں۔ ان کی تحریر میں بڑی دلکشی، دلنشینی اور اثر انگیزی پائی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقروں میں عام بول چال کے الفاظ سے بڑی شگفتگی اور دلکشی پیدا کرتے ہےں۔ اپنی تحریروں میں خواجہ صاحب اصلاحی مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
تعارفِ سبق

”غدرِ دہلی کے افسانے “ کے عنوان سے خواجہ حسن نظامی نے غدر کے واقعات خصوصاً شاہی خاندان کے پردرد المیوں اور حالات پر افسانوں کا مجموعہ شائع کیا۔ ”بنتِ بہادر شاہ“ اس مجموعے کا ایک افسانہ ہے۔ اس افسانے میں خواجہ حسن نظامی نے بہادر شاہ ظفر کی دلگداز داستان بیان کی ہے۔ آپ نے بڑے

خوبصورت پیرائے میں ۷۵۸۱ءکی جنگِ آزادی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔

عبارت ۱

تیمور کی نام کی عزت رکھیو اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچائیو۔
تشریح

پیشِ نظر عبارت بہادرشاہ ظفر کی دعا کے الفاظ ہیں جو وہ اس وقت کرتے ہیں جب ان سے ان کی سلطنت انگریز فوج نے چھین لی ہے۔ وہ اپنی بیٹی اور دیگر اہلِ خانہ کو اس خیال سے محل سے روانہ کرتے ہیں کہ اس طرح وہ محفوظ رہیں گے اور دعا کرتے ہےں کہ اے خدا یہ لاواث بچے میں تیرے حوالے کرتا ہوں۔ انہوں نے

آج تک محل کے باہر کے حالات نہیں دیکھے۔ ان کا تیرے سوا کوئی مددگار نہیں۔ تیمورکی اولاد ہیں اس کے نام کی عزت رکھنا اور ان لاچار اور مجبور عورتوں کی عزت و آبرو تو بچانے والا ہے







Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

توصیف کا خواب

حوالہ

پیش نظر عبارتعلامہ راشد الخیری کی کہانی توصیف کا خواب سے لی گئی ہے۔
تعارفِ مصنف

علامہ راشدالخیری اردو ادب میں ”مصورِ غم“ کے لقب سے مشہور ہیں۔ ان کی تحریریں عام طور پر دردوغم میں غوطہ زن نظر آتی ہیں۔ ان کے ناولوں اور افسانوں کا بنیادی مقصد قومی اصلاح، انسانی ہمدردی اور اصلاحی اصولوں کی پابندی ہے۔ تعلیم نسواں کی جس کوشش کا آغاز کیا گیا تھا اس مےں راشدالخیری نے بڑھ

چڑھ کر حصہ لیا۔
تعارفِ سبق

اس کہانی میں مصنف نے جس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی ہمدردی سب سے بڑی عبادت ہے۔ انسان جب دوسروں کی مدد کرتا ہے تو خدا اس سے خوش ہوتا ہے اور اسے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخرو کرتا ہے
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

عبارت ۱

خدا کا اصلی گھر تو بچھڑے ہوئے کلیم کی ماں کا دل تھا۔
تشریح

پیشِ نظر عبارت مےں مصنف نے اس وقت کے واقعہ کو بیان کیا ہے جب توصیف غریب عورت کے بچے کو چھڑا لاتی ہے اور اپنے بچے کی مایوس کن حالت دیکھ کر پریشانی کے عالم مےں سوجاتی ہے۔ اس وقت وہ خواب میں ایک شخص کو دیکھتی ہے جو اس کے سامنے یہ جملہ ادا کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان دنیا مےں نیکی

اور ثواب کمانے کی غرض سے بیشمار کام کرتا ہے۔ جیسے کہ کوئی مسجد تعمیر کرواتا ہے یا کوئی کنواں کھدواتا ہے۔ لیکن اللہ کی نظر میں اصل نیکی کسی دکھی یا مصیبت زدہ انسان کے کام آنا ہے یا اس کی مصیبت کو دور کرنا ہے

عبارت ۲

برا ماننے کی بات نہیں۔ مسلمانوں کے دورِ موجود میں دولت لامذہبی کی جڑ ہے۔
تشریح

مصنف نے مندرجہ بالا عبارت میں جس حقیقت کو بیا ن کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان دکھ اور مفلسی میں اللہ کو ہر وقت یاد کرتا ہے اور ہر قسم کی عبادت کرتا ہے۔ وہ پانچوں وقت نماز پڑھتا ہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد بھی پڑھتا ہے لیکن جب وہی آدمی امیر ہوجاتا ہے تو اسے دولت کا ایسا نشہ

چڑھتا ہے کہ وہ صرف اور صرف دولت کمانے کی حرص میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اللہ کو بالکل یاد نہیں کرتا اور دین کی راہ سے ہٹ جاتا ہے۔ یہ بات آجکل کے دور میں پہلے کی نسبت زیادہ عام ہوگئی ہے

عبارت ۳

دولت جس کے کاٹے کا منتر نہیں، صورت جس کے جادو کا اتار نہیں دونوں غائب۔
تشریح

مندرجہ بالا عبارت میں مصنف نے توصیف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی، مال و زر اس کے پاس نہ تھا اور دولت ایسی چےز ہے کہ جو اس کے اثر میں آجائے نکل نہیں سکتا۔ اسی طرح توصیف کے پاس اچھی صورت بھی نہیں تھی۔ یہ بھی ایک ایسی چیز ہے کہ لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

اس طرح تو توصیف میں دونوں کمزوریاں موجود تھیں






Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

سچی ہمدردی

حوالہ

پیش نظر عبارتڈپٹی نذیر احمد کے قصہسچی ہمدردی سے لی گئی ہے۔ جو ان کے ایک شاہکار ناول توبتہ انصوح سے ماخوذ ہے۔
تعارفِ مصنف

ڈپٹی نذیر احمد سرسید کی اصلاحی تحریکوں کے ایک سرگرم رکن تھے۔ آپ اردو ادب میں اپنے اصلاحی ناولوں کے لئے مشہور ہیں۔ انہوں نے ناولوں سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لیا۔ ان کی تحریر بڑی سادہ، عمدہ اور بامحاورہ ہوتی ہے۔
تعارفِ سبق

اس سبق میں مصنف نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ انسانوں کو مظلوموں اور بے کسوں کے ساتھ عملی طور پر ہمدردی کرنی چاہئے۔ انہوں نے اس اخلاقی قدر کی بھی عظمت و اہمیت جتائی ہے کہ نیکی کو حصولِ شہرت کا وسیلہ نہیں بنانا چاہئے۔

عبارت ۱

برسوں کا نانواں اور روج کی ٹال مٹول۔
تشریح

مصنف نے پیشِ نظر عبارت میں اس وقت کا منظر بیان کیا ہے جب بنیا خان صاحب سے قرض لینے آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خان صاحب نے جتنی مدت کے لئے قرض لیا تھا وہ پوری ہوچکی ہے اور اب قرض کی رقم کی ادائیگی میں ٹال مٹول کررہا ہے۔ اور اسی بات پر ان دونوں کا ہر روز جھگڑا ہوتا تھا اور بنیا اب اس سے ہر

صورت میں اپنے پیسے وصول کرے گا۔

عبارت ۲

میں اس وقعت کے ساتھ بیٹھاہوا تھا جیسے خوش دل اور شکرگزار رعایا میں کوئی بادشاہ یا حلقہ مریدانِ ارادتمند میں کوئی پیرو مرشد۔
تشریح

پیشِ نظر عبارت میں مصنف نے اس وقت کا ذکر کیا ہے جب علیم اپنی ٹوپی فروخت کرکے خان صاحب کا قرض چکانے نے بعد ان کے گھر میں بیٹھا ہوتا ہے۔ خان صاحب اور ان کے گھروالے علیم سے بہت خوش تھے اور شکریہ ادا کررہے تھے۔ علیم کہتا ہے کہ ان لوگوں میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی بادشاہ

اپنی شکرگزار رعایا کے ساتھ یا پیر صاحب اپنے مریدوں کے درمیان عقیدت مندوں کے ساتھ بیٹھے ہوں

عبارت ۳

اس نے اتنی احسان مندی ظاہر کی کہ الٹا میں اسی کا ممنون ہوا۔
تشریح

مندرجہ بالا عبارت میں مصنف نے اس وقت کا ذکر کیا ہے جب علیم خان صاحب کے گھر میں ان کا قرض چکانے کے بعد بیٹھا تھا۔ خان صاحب کی بیوی اس کی اتنی شکر گزار اور احسان مند تھےں کہ وہ بار بار علیم کا شکریہ ادا کررہی تھی اور سب گھروالے اس کے ساتھ اتنی عزت و احترام کے ساتھ پیش آرہے تھے، ان کی یہ

شکرگزاری اور محبت دیکھ کر علیم اور شرمندہ ہوئے جارہا تھا



Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

نظریہ پاکستان

حوالہ

پیش نظر عبارت ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے مضمون نظریہ پاکستان سے لی گئی ہے۔
تعارف مصنف

ڈاکٹر غلام مصطفی خان تحقیقی و علمی میدان میں ایک نمایا ں مقام رکھتے ہےں۔ ان کی تحریر کا انداز سلجھا ہوا، سادہ ، سلیس اور دلکش ہے۔
تعارفِ سبق

نظریہ پاکستان مصنف کا ایک فکر انگیز مضمون ہے اور اس سبق میں مصنف نے تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کی ہے۔

عبارت ۱

مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے جو لا الہٰ الا اللہ پر قائم ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا عبارت میں مصنف مغربی مفکرین کی قومیت کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے نظریہ کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی بنیاد اس قوم کے لوگوں کے عقیدے پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی قوم لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کوئی مسلمان موجود ہے تو وہ اس

قوم میں شمار کیا جائے گا۔ مسلمان اس نظریہ کی تردید کرتے ہیں کہ قوم،نسل، رنگ اور وطن سے بنتی ہے۔ قوم کی بنیاد تو ایک عقیدے، ایک کلمے اور ایک نظرئیے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
بقول اقبال
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب مےں قومِ رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم ہاشمی

عبارت ۲

نظریہ پاکستان کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا ہے۔
تشریح

پیش نظر عبارت میں مصنف نے ذکر کیا ہے کہ نظریہ�¿ پاکستان کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو اسلام کے سنہری اصولوں کا پابند ہو۔ اس معاشرے میں اخوت، مساوات، عدل و انصاف، دیانت، خداترسی، انسان ہمدردی اور عظمتِ کردار جیسی خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اور اس میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے

لئے کام ہو۔ ایسے معاشرے کا قیام ہی نظریہ�¿ پاکستان کی صحیح عکاسی کرتا ہے+





Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

سندھ میں علم و فضل

حوالہ

پیش نظر عبارتغلام رسول مہر کے مضمون سندھ مےں علم و فضل سے لی گئی ہے۔
تعارفِ سبق

اس سبق میں منصف نے مختلف حوالوں سے سندھ کے لوگوں کی علمی دوستی ثابت کی ہے۔ غرض پڑھنے والوں کو مختلف حوالوں سے علم کی افادیت سے آگاہ کیا ہے۔

عبارت ۱

اسلاف کی کتابوں کو بے دردی سے لٹادیا اور جواہرات کو کوڑیوں کے مول فروخت کردیا۔
تشریح

اس عبارت میں مصنف ان لوگوں کو ذکر کررہا ہے جو علم کی اہمیت سے آگاہ نہ تھے۔ انہوں نے اپنے بزرگوں کی نہایت قیمتی اور نادر کتابوں کو بڑی بے دردی سے برباد کرڈالا۔ یہ علمی خزانے جو قدروقیمت کے اعتبار سے ہیرے جواہرات سے کم نہ تھے ان لوگوں نے معمولی داموں فروخت کردیے اور سندھ میں علم و ادب کو

ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا+

عبارت ۲

چار سو درسگاہوں کا وجود بہرحال علمی ذوق کے عام ہونے کی دستاویز ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا عبارت مےں منصف نے اس وقت کا ذکر کیا ہے جب کپتان ہملٹن ٹھٹھہ آئے تھی اور اس وقت ٹھٹھہ میں تقریباً چارسو درسگاہیں موجود تھیں۔ سندھ عرصہ�¿ دراز سے ہی علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔ آج سے تقریباً تین سو سال پہلے سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں بڑے بڑے عالم موجود تھے۔ اس شہر میں طلبہ دور دور

سے علم کی پیاس بجھانے کے لئے آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شہر ٹھٹھہ میں چار سو درس گاہیں قائم کی گئیں۔ صرف اس بات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ سندھ کو علم کے حوالے سے کتنی برتری حاصل تھی


Re: Reference to Context
 عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق

حوالہ

پیش نظر عبارتسید سلیمان ندوی کے مضمون حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے لی گئی ہے۔ جو ان کے استاد علامہ شبلی نعمانیکی تحریر کردہ سیرت النبیصلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ علامہ شبلی کے انتقال کے بعد اس کتاب کو سید سلیمان ندوی نے مکمل کیا۔
تعارفِ مصنف

سید سلیمان ندوی، علامہ شبلی نعمانی کے ہونہار شاگرد گزرے ہیں۔ شبلی کی طرح آپ کا طرزِ تحریر بھی سادہ، سلیس دلکش اور عالمانہ ہے۔ سیرت النبیصلی اللہ علیہ وسلم کو پایہ� تکمیل تک پہنچا کر انہوں نے اپنی شاگردی کا حق ادا کردیا۔
تعارفِ سبق

اس سبق میں مصنف نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ�¿ حسنہ پر روشنی ڈالی ہے اور ان کی شخصیت کے نمایاں پہلوو�¶ں کو لفظوں کے احاطے میں بڑی خوبصورتی سے مقید کیا ہے۔

عبارت ۱

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے۔
تشریح

ایک آدمی نے حضرت عائشہ رضہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں یہ جملہ ارشاد فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا، جو کچھ قرآن میں ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں۔ اس عبارت میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو

قرآن پاک کی تعلیمات کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن پاک کی تعلیمات کو اپنایا۔ غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی تعلیمانت کا عملی نمونہ تھی

عبارت ۲

ڈرو نہیں اگر تم مجھے قتل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے۔
تشریح

ایک بار ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ صحابہ رضہ اس کو گرفتار کرکے سامنے لائے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کر ڈر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ اس وقت ادا فرمایا۔ پہلے پہل صحابہ اکرام رضہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے اور گھر پر

پہرہ بھی دیتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ آپ نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محبوب اور آخری نبی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا تھا۔اس لئے کوئی بھی طاقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کا نقصان

نہیں پہنچا سکتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ شخص بھی اپنی شدید ترین کوشش کے باوجود اپنی خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا

عبارت ۳

تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے برباد ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب معمولی آدمی جرم کرتا تو وہ سزا پاتا۔ خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضہ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے۔
تشریح

یہ الفاظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ادا کئے تھی جب حضرت اسامہ رضہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیلہ مخزوم کی ایک عورت کی سفارش کی تھی جس نے چوری کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بہت ناراض ہوئے تھے اور آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم

فرماتے ہیں کہ پچھلی قومیں اسی وجہ سے برباد ہوئیں کہ امیرآدمی کا جرم تو معاف ہوجاتا مگر جب کوئی غریب آدمی جرم کرتا تو اس کو سخت سے سخت سزا کاٹنی پڑتی۔ اسلام میں انصاف کا ترازو سب کے لئے برابر ہے اور اسی لئے حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ

رضہ بھی چوری کرتی تو ان کے ہاتھ بھی کاٹ دئےے جاتے۔ اس واقعہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انصاف پسندی ظاہر ہوتی ہے

عبارت ۴

بھائیو اس دن کے لئے سامان کر رکھو۔
تشریح

مندرجہ بالا الفاظ حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابہ کے جنازے مےں شریک تھے۔ قبر کھودی جارہی تھی، آپصلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور یہ منظر دیکھ کر رونے لگے یہاں تک کے زمین تر ہوگئی پھر حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ

ارشاد فرمایا۔ اس جملے میں حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تاکید کی ہے کہ وہ موت سے پہلے پہلے جس قدر نیکیاں کرسکتے ہیں کرلیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو جنت کی باغوں مےں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا قرار دیا ہے۔ اسی لئے انسان کو زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنے کے

لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ عذابِ قبر سے محفوظ رہ سکےں اور آخرت میں سرخرو ہوسکے


Re: Reference to Contex
t عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

سومناتھ کی فتح

حوالہ

پیش نظر عبارت مولانا محمد حسین آزاد کے مضمون سومناتھ کی فتح سے لی گئی ہے۔
تعارفِ مصنف

مولونا محمد حسین آزاد نے اردو ادب کی ہرہر طرح سے خدمت کی مکالمہ نگاری و انشا پردازی اور شوخی و ظرافت میں آپ حدِ کمال پر نظر آئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ موسیقیت اور آہنگ ان کی عبارت کا جز ہے۔ آپ نے بڑی براثر تحریریں قلمبند کی ہیں جن میں سے ایک ”سومناتھ کی فتح“ ہے۔
تعارفِ سبق

اس سبق میں مصنف نے سومناتھ کے مندر پر محمود غزنوی کے آخری حملے کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس مضمون میں مولانا نے مسلمانوں حکمرانوں کے عزم و حوصلہ اور ہمت کا پرچار کرکے دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دی ہے۔

عبارت ۱

دیکھا تو یہی دیکھا کہ فوج کا دَل بادل چھاگیا ہے اور نشانِ محمودی لہرا رہا ہے۔
تشریح

اس عبارت میں منصف نے اس وقت کا منظر بیان کی ہے۔ جب محمود غزنوی کی فوج شہرِ سومناتھ پر حملہ کرنے پہنچ چکی تھی۔جب محمود غزنوی کا لشکر سومناتھ کے شہر پہنچا تو اہل شہر سب سورہے تھی۔ جب وہ لوگ گھبرا کر اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ محمود غزنوی کی فوج دور دور تک اس طرح پھیلی ہوئی ہے جیسے

کہ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں اور جگہ جگہ محمود غزنوی کی فوج کے جھنڈے لہرارہے ہیں+

عبارت ۲

مشرق کا شہسوار ستاروں کی فوج کو شکست دے کر شعاع کا نیزہ ہاتھ میں لئے نکلا۔
تشریح

اس عبارت میں مصنف نے دوسرے دن سورج طلوع ہونے کے منظر کو افسانوی انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ سورج اپنی روشنی بکھیرتا ہوا مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ جب سورج کی کرنیں آسمان پر پھیلتی ہیں تو ستاروں کی چمک ماند پڑجاتی ہے۔ اور ہر طرف اُجالا ہوجاتا ہے۔ سورج کی کرنیں ستاروں کی جھلملاہٹ پر

اس طرح چھا جاتی ہے جیسے کوئی فوج اپنے دشمن کو شکست دے کر اس پر غلبہ حاصل کرلیتی ہے+

عبارت ۳

ہندوستان جنت نشان جس کا دروازہ باپ نے کھولا تھا، محمود غزنوی نے اسے گیارہ دفعہ زیرو زبر کیا۔
تشریح

سلطان سبکتگین کا شمار دنیا کے عظیم فاتحین میں ہوتا ہے۔ اس کا بیٹا محمود غزنوی بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چل کر عظیم فاتح بنا۔ اس کے باپ نے اس کے لئے ہندوستان کا راستہ ہموار کیا اور محمود غزنوی نے اس پر گیارہ دفعہ حملہ کیا۔ اس کا آخری حملہ گجرات میں سومناتھ پر تھا۔ یہ شہر اس وقت ہندوستان کی تہذیب

کا مرکز تھا+

عبارت ۴

اس وقت پس وپیش اور یمین و یسار کی تقسیم ہوکر ڈیرے ڈیرے میں حکم پہنچ گیا، صبح نور کے تڑکے قلعے پر دھاوا ہوجائے۔
تشریح

مندرجہ بالا عبارت میں مصنف اس وقت کی صورتحال بیان کررہے ہیں جب محمود غزنوی کی فوج ایک دن کی جنگ کے بعد رات گزارنے کے لئے اپنے خیموں میں آگئی تھی اور صبح کی جنگ کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ محمود غزنوی نے دائیں اور بائیں طرف کی فوج کو بانٹ دیا اور ہر مورچے میں محمود غزنوی کا

حکم پہنچ گیا کہ سورج نکلنے سے پہلے قلعے پر حملہ کرنا ہے

عبارت ۵

میرے نزدیک بت فروش نام پانے سے بت شکن ہونا بہتر ہے۔
تشریح

محمود غزنوی نے اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے ہندوستان پر کئی حملے کئے۔ جن میں سے ایک بڑا معرکہ سومناتھ کے مندر پر حملہ تھا۔ جب اس کی فوج مندر پر قبضہ کرچکی تو مندر کے پجاریوں نے محمود غزنوی کو مال و دولت کا لالچ دیا۔ لیکن محمود غزنوی نے ان کی ہر پیشکش ٹھکرا تے ہوئے یہ جملہ ادا کیا:”غنی اس

نے دین ِ اسلام کی سربلندی کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے بت کے ٹکڑے ٹکڑے کردئےے مگر اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا۔“+




Re: Reference to Context عبارت کی تشریح

--------------------------------------------------------------------------------

Guzra howa zamana

گزرا ہوا زمانہ

حوالہ

پیش نظر عبارت سرسید احمد خان کے مضمون گزرا ہوا زمانہ سے لی گئی ہے۔
تعارفِ مصنف

سرسید احمد خان کی تحریر کی چھاپ بڑی گہری ہے۔ انہوں نے تعلیم سے اصلاح کا کام لیا اور زبان میں سادگی اور فطری انداز کو رواج دیا۔ ان کی تحریر سادہ، رواں اور صاف ستھری ہے۔ وہ زبان کی نوک بلک سنوارنے سے زیادہ ادائے مطلب پر زور دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر عام طور پر سادہ، دلکش اور عام فہم

ہوتی ہے۔
تعارفِ سبق

اس مضمون مےں منصف نے نوجوانوں کو قومی بھلائی میں حصہ لینے کی نصیحت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وقت کی قدر کریں اور اس کا صحیح طور پر استعمال کرنا سیکھیں۔

عبارت ۱

ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔
تشریح

اس عبارت میں مصنف اس وقت کا منظر بیان کررہا ہے جب بوڑھے کو اپنے والدین اور دوست احباب یاد آتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کا رویہ اپنے والدین اور عزیزو اقارب کے ساتھ کبھی بھی اچھا نہیں تھا پھر بھی وہ لوگ اس سے بے حد محبت کرتے تھی اور اس کو دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ آج جب ان کے مرجانے

کے بعد بوڑھے کو ان کی محبت یاد آتی ہے تو اس کا دل شدتِ غم سے ٹکڑے ٹکڑ ے ہوجاتا ہے

عبارت ۲

جو کوئی خدا کے فرض کو اس بدوی کی طرح جس نے کہا ” واللہ لا ازید ولا انقص“ ادا کرکر انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کی اس کی میں مسخر ہوتی ہوں۔
تشریح

یہ الفاظ نیکی کی دلہن کے ہیں جو وہ اس وقت ادا کرتی ہے جب بوڑھا اس سے اس کو حاصل کرنے کی ترکیب دریافت کرتا ہے۔ نیکی کی دلہن بوڑھے سے کہتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خدمت خلق کے لئے وقف کرے، لوگوں کی خدمت کرے اور ان کے ساتھ بھلائی کرے تو وہ ہی مجھ کو حاصل کرسکتا ہے۔ مجھ کو

حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے جائیں اور اس بات کے لئے کوشاں رہا جائے کہ اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچے

عبارت ۳

اپنا حال سوچ کر اس دلفریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔
تشریح

مصنف نے اس عبارت میں اس وقت کا ذکر کیا ہے جب بوڑھا نیکی کی دلہن سے اس کو حاصل کرنے کا طریقہ دریافت کرتا ہے۔ نیکی کی دلہن اس کو بتاتی ہے کہ اس کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کی فلاح کے لئے کام کیا جائے۔ لیکن جب بوڑھا اپنے ماضی پر نظر ڈالتا ہے تو اس کو کوئی ایسا کام نظر نہیں آتا جو اس

نے انسان کی فلاح کے لئے کیا ہو بلکہ اس نے جو بھی کام کیا اپنی ذات کے لئے کیا۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھ کر بوڑھا اس مایوسی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ نیکی کی دلہن کو نہیں پاسکتا



ہاسٹل میں پڑھنا

حوالہ

پیش نظر عبارت پطرس بخاری کے مضمون ہاسٹل میں پڑھنا سے لی گئی ہے۔
تعارفِ مصنف

احمد شاہ پطرس بخاری نے جس قدر کم لکھا اسی قدر زیادہ دلچسپ اور تجرباتی مواد اردو کو فراہم کیا۔ طنز نگاروں میں پطرس بخاری نے جلد ہی ایک بلند پایہ مقام حاصل کرلیا۔ اس کا سبب ان کی گہری قوتِ مشاہدہ اور ذوقِ سلیم ہے۔
تعارفِ سبق

اس مضمون میں پطرس بخاری نے مزاحیہ اور دلچسپ انداز میں طالب علموں کے اس طبقے کی فطرت ظاہر کی ہے جو پڑھائی کو تفریحِ طبع کا ذریعہ سمجھتے ہےں اور درسگاہوں کو تفریح گاہ اور اس ادارے سے اتنے مانوس بھی ہوجاتے ہیں کہ چھوڑنا نہیں چاہتے لہذا جان کر فیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

عبارت ۱

ہم تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ اپنے ساتھ لئے ہاسٹل میں آرہے ہیں۔
تشریح

مصنف اس عبارت میں کہتا ہے کہ وہ بار بار فیل ہوکر کئی سال سے ایک ہی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے اور اب وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اب وہ گھر کے بجائے ہاسٹل میں پڑھے گا۔ اس بار بار فیل ہونے کے نتیجے میں اور ایک ہی کورس کئی بار پڑھنے کو مصنف نے تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ قرار دیا ہے۔












































































































































































































































































































































































































































No comments:

Post a Comment