قومی اتحاد
یہ مضمون اس عنوان کے علاوہ مندرجہ ذیل عنوانات سے بھی پوچھا جا سکتا ہے:
(۱) پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
(۲) فرد قائم ربطِ ملت سے تنہا کچھ نہیں
اتحاد میں بڑی طاقت اور اخوت ہے۔ کسی ملک کی بقا کا انحصار قومی یک جہتی اور اتفاق پر ہے۔ کوئی جماعت، کوئی ملک، کوئی قوم اقوام عالم کی نگاہ میں عزت و آبرو اور وقار و احترام کا مقام نہیں پاسکتی جب تک کہ اس کے افراد میں یک جہتی اور ہم آہنگی نہ ہو۔ قومی اتحاد کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی ایک خام خیال ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اقبال ایک خواب ہے۔
جس طرح موج کی قوت کا زور، جوش، تلاطم اور طنطنہ دریا کے اندر ہے، دریا کے باہر موج کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی طرح فرد کی اپنی کوئی قوت نہیں ہوتی، فرد تنہا کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب وہ ایک ملت میں گم ہوجاتا ہے تو بڑی قوت بن جاتا ہے۔ اقبال نے قومی اتحاد اور ملی زندگی کی اہمیت کو ایک تعمیر اور بالخصوص اسلامی معاشری کے قیام کے لئے بہت سی جگہوں پر اجاگر کیا ہے۔
ایک جگہ کہتے ہیں
ملت سے اپنا ربط استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اقبال مسلمانوں کی اجتماعی روح کی تصویر کو اپنے ذہن میں رکھ کر ایک متحد اور ہم آہنگ زندگی بسر کرنے کی پرزور اپیل کرتے ہیںاور جہاں کہیں مسلمانوں کے اتحاد کے آنسو پارہ پارہ ہوتے دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں۔ مسلمانوں کے انتشار کو دیکھتے ہیں اور دردِ قومی سے چیخ اٹھتے ہیںاور ان کی زبان کی نوک پر اپنے پرسوز شعر آجاتے ہیں
ایک ہی اس قوم کا ایمان بھی ایک حرم پاک بھی
اللہ بھے قرآن بھی ایک، ایک ہی سب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
دین بھی کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لئے قرآن حکیم کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات موجود ہے۔ جو اتحاد اور ربطِ باہمی کا درس دیتا ہے اور ایک واضح مقصدِ حیات پیش کرتا ہے۔ ایک منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس اس منزل تک پہنچنے کے لئے افراد کو قدم سے قدم ملا کر دوش بدوش گامزن ہونا ضروری ہے اگر وہ متحد و متفق ہوکر آگے بڑھیں تو کوئی بھی مخالف قوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ ایک ایسا طوفان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے دریاوں کے دل بھی دہل جائیں گے اور جس کے متحد عزم و ارادہ کے آگے پربت رائی ہوکر رہ جائے۔
بقول اقبال
ہیں ضبطِ باہمی سے قائم نظارے سارے
یہ نکتہ ہے نمایاں تاروں کی طرح سے
Re: Reference and Meaning of Poems
شعر
شعر
شعر
شعر
شعر
شعر
شعر
شعر
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
شعر
شعر
شعر
شعر
شعر
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
شعر
شعر
شعر
شعر
یہ مضمون اس عنوان کے علاوہ مندرجہ ذیل عنوانات سے بھی پوچھا جا سکتا ہے:
(۱) پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
(۲) فرد قائم ربطِ ملت سے تنہا کچھ نہیں
اتحاد میں بڑی طاقت اور اخوت ہے۔ کسی ملک کی بقا کا انحصار قومی یک جہتی اور اتفاق پر ہے۔ کوئی جماعت، کوئی ملک، کوئی قوم اقوام عالم کی نگاہ میں عزت و آبرو اور وقار و احترام کا مقام نہیں پاسکتی جب تک کہ اس کے افراد میں یک جہتی اور ہم آہنگی نہ ہو۔ قومی اتحاد کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی ایک خام خیال ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اقبال ایک خواب ہے۔
جس طرح موج کی قوت کا زور، جوش، تلاطم اور طنطنہ دریا کے اندر ہے، دریا کے باہر موج کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی طرح فرد کی اپنی کوئی قوت نہیں ہوتی، فرد تنہا کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب وہ ایک ملت میں گم ہوجاتا ہے تو بڑی قوت بن جاتا ہے۔ اقبال نے قومی اتحاد اور ملی زندگی کی اہمیت کو ایک تعمیر اور بالخصوص اسلامی معاشری کے قیام کے لئے بہت سی جگہوں پر اجاگر کیا ہے۔
ایک جگہ کہتے ہیں
ملت سے اپنا ربط استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اقبال مسلمانوں کی اجتماعی روح کی تصویر کو اپنے ذہن میں رکھ کر ایک متحد اور ہم آہنگ زندگی بسر کرنے کی پرزور اپیل کرتے ہیںاور جہاں کہیں مسلمانوں کے اتحاد کے آنسو پارہ پارہ ہوتے دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں۔ مسلمانوں کے انتشار کو دیکھتے ہیں اور دردِ قومی سے چیخ اٹھتے ہیںاور ان کی زبان کی نوک پر اپنے پرسوز شعر آجاتے ہیں
ایک ہی اس قوم کا ایمان بھی ایک حرم پاک بھی
اللہ بھے قرآن بھی ایک، ایک ہی سب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
دین بھی کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لئے قرآن حکیم کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات موجود ہے۔ جو اتحاد اور ربطِ باہمی کا درس دیتا ہے اور ایک واضح مقصدِ حیات پیش کرتا ہے۔ ایک منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس اس منزل تک پہنچنے کے لئے افراد کو قدم سے قدم ملا کر دوش بدوش گامزن ہونا ضروری ہے اگر وہ متحد و متفق ہوکر آگے بڑھیں تو کوئی بھی مخالف قوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ ایک ایسا طوفان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے دریاوں کے دل بھی دہل جائیں گے اور جس کے متحد عزم و ارادہ کے آگے پربت رائی ہوکر رہ جائے۔
بقول اقبال
ہیں ضبطِ باہمی سے قائم نظارے سارے
یہ نکتہ ہے نمایاں تاروں کی طرح سے
کتاب انسان کی بہترین دوست ہے
کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔“
یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔
کتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔
مطالعہ کتب سے نہ صرف، ہماری ذہنی نشونما ہوتی ہے بلکہ پریشانی کے عالم میں یہ ہماری دلچسپی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ایک اچھی کتاب بہترین غذا بھی ہوتی ہے۔ کتابوں میں جو علوم کا خزانہ موجود ہوتا ہے وہ لازوال ہے۔ گردشِ روز گار پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتا یہ اپنے طلب گاروں اور شیدائیوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت ہر انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ کسی سے بے وفائی نہیں کرتی۔ دولت ِ دنیا چھن سکتی ہے مگر کتب بینی سے حاصل کیا ہوا علم چرایا نہیں جاسکتا۔
کتب بینی سے انسان کے اخلاق و کردار پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو برائی کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ اس لئے مطالعہ کتب کےلئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتابیں چنتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ ان کا موضوع تعمیری رحجانات کا حامل ہو۔ منحرف اخلاق اور فحش قسم کی کتابیں ہماری بدترین دشمن تو بن سکتی ہیں دوست نہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں تو ہماری مراد ان کتابوں سے ہے جس سے ہمارے کرار کی تعمیر میں مدد ملے۔ ہماری قومی اور ملی زندگی میں صحت مند رحجانات کو فروغ حاصل ہو۔ ہماری فلاح و بہبود اور ترقی و عروج کی راہیں ہموار ہوں۔ دل میں وطن اور اہلِ وطن کی محبت کا جذبہ ابھرے اور عالمگیرانسانیت، اخوت اور بھائی چارگی کا احساس پیدا ہو، عظمت آدم کی سربلندی حاصل ہو۔
اگر مطالعہ کتب سے یہ مقاصد حاصل ہوتے ہیں تو یقیناً:
یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔
کتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔
مطالعہ کتب سے نہ صرف، ہماری ذہنی نشونما ہوتی ہے بلکہ پریشانی کے عالم میں یہ ہماری دلچسپی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ایک اچھی کتاب بہترین غذا بھی ہوتی ہے۔ کتابوں میں جو علوم کا خزانہ موجود ہوتا ہے وہ لازوال ہے۔ گردشِ روز گار پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتا یہ اپنے طلب گاروں اور شیدائیوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت ہر انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ کسی سے بے وفائی نہیں کرتی۔ دولت ِ دنیا چھن سکتی ہے مگر کتب بینی سے حاصل کیا ہوا علم چرایا نہیں جاسکتا۔
کتب بینی سے انسان کے اخلاق و کردار پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو برائی کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ اس لئے مطالعہ کتب کےلئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتابیں چنتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ ان کا موضوع تعمیری رحجانات کا حامل ہو۔ منحرف اخلاق اور فحش قسم کی کتابیں ہماری بدترین دشمن تو بن سکتی ہیں دوست نہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں تو ہماری مراد ان کتابوں سے ہے جس سے ہمارے کرار کی تعمیر میں مدد ملے۔ ہماری قومی اور ملی زندگی میں صحت مند رحجانات کو فروغ حاصل ہو۔ ہماری فلاح و بہبود اور ترقی و عروج کی راہیں ہموار ہوں۔ دل میں وطن اور اہلِ وطن کی محبت کا جذبہ ابھرے اور عالمگیرانسانیت، اخوت اور بھائی چارگی کا احساس پیدا ہو، عظمت آدم کی سربلندی حاصل ہو۔
اگر مطالعہ کتب سے یہ مقاصد حاصل ہوتے ہیں تو یقیناً:
سمندر کے کنارے ایک شام
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ میں نے پہلے ہی ہفتہ میں اسکول کا دیا ہوا گھر کا کام ختم کرلیا تھا۔ اس لئے اس طرف سے بے فکر اور مطمئن تھا۔ وقت کی کمی نہ تھی چنانچہ مجھے تفریح کی سوجھی اور میں نے چند دوستوں کے ساتھ ہاکس بے جانے کا پروگرام بنالیا۔
پکنک پر جانے سے ایک دن پہلے ہم بازار گئے اور وہاں سے کھانے پینے کی اشیاءخریدیں اور منی بس بھی کرائے پر لی اور آپس میں دیگر ذمہ داریاں تقسیم کرلیں۔ کسی نے کباب کا ذمہ لیا تو کسی نے کولڈ ڈرنگ کاذمہ اور کسی نے پراٹھے لے آنے کا۔
اب جب روانہ ہوئے تو صبح کے سات بجے کا وقت تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں ہم لوگ ہاکس بے جاپہنچے۔ سب سے پہلے ہم نے ہٹ کرائے پر لیااور سامان وغیرہ رکھ کر تیراکی کے شوق میں پانی میں اتر گئے۔ گرمی عروج پر تھی اور ہم پسینے میں شرابور ہوگئے تھے۔ اس لئے تیرنے میںبڑا مزہ آیا۔ ہم اپنے گیند بھی لے گئے تھے اس لئے واٹر پولو کھیلنے میں بڑا مزا آیا۔۔
ایک بجے ہم سب ہٹ میں واپس آگئے۔ ہم تیر تیر کر خوب تھک چکے تھے۔ اس لئے بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ہم نے سیر ہوکر کھایا اور کچھ دیر ریت پر لیٹ گئے اور گپ بازی کرنے لگے۔ چاربجے ہم نے چائے پی۔ پھر ہم سب کھیلنے اور سیپیاں جمع کرنے پانی کے قریب گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی، عزم اور لطف اندوز ہوائیں چل رہی تھےں۔ ہم میں سے چند نے پھر تیرنا شروع کردیا۔ غرض ان مشاغل میں دن ڈھل گیا اور موجیں زور زور سے اٹھنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ پانی کی اونچی اونچی دیواریں یکے بعد ساحل کی طرف بڑھ رہی ہیں اور جیسے تماشائیوں کے ہجوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
دن بھر کا تھکا ماندا آفتاب افقِ مغرب کی اوٹ میں سرنگوں تھا۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا طبیعت میں کسل مندی پیدا کررہی تھی اور آسمان کے کنارے شفق رنگین بڑے دیدہ زیب نظر آرہے تھے۔ دور تک سرخ دھاریں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے عروسِ شام رنگین آنچل سے ڈھلک گئی ہو۔ ہم کافی دیر سے غروبِ آفتاب کے اسی روح پرور نظاری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ آخر شام کی سیاہی بڑھی اور ہم سارے دوست ہٹ میں واپس آگئے اور دسترخوان کے گرد بیٹھ گئے اور کھانے کی اشیاءپر ٹوٹ پڑے۔
ویگن پر سوارہوکر واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے میں ہم بہت تھک چکے تھے۔ مگر اس میں ایک کیف و سرور کا احساس شامل تھا۔ ساحلِ سمندر پر گزری ہوئی یہ شام ہمارے لئے ایسے جلووں، ایسی دلآویزی و دلکشی اور سامانِ فرحت رکھتی ہے کہ اس کی یاد ہمیں کبھی نہیں بھولتی۔
پکنک پر جانے سے ایک دن پہلے ہم بازار گئے اور وہاں سے کھانے پینے کی اشیاءخریدیں اور منی بس بھی کرائے پر لی اور آپس میں دیگر ذمہ داریاں تقسیم کرلیں۔ کسی نے کباب کا ذمہ لیا تو کسی نے کولڈ ڈرنگ کاذمہ اور کسی نے پراٹھے لے آنے کا۔
اب جب روانہ ہوئے تو صبح کے سات بجے کا وقت تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں ہم لوگ ہاکس بے جاپہنچے۔ سب سے پہلے ہم نے ہٹ کرائے پر لیااور سامان وغیرہ رکھ کر تیراکی کے شوق میں پانی میں اتر گئے۔ گرمی عروج پر تھی اور ہم پسینے میں شرابور ہوگئے تھے۔ اس لئے تیرنے میںبڑا مزہ آیا۔ ہم اپنے گیند بھی لے گئے تھے اس لئے واٹر پولو کھیلنے میں بڑا مزا آیا۔۔
ایک بجے ہم سب ہٹ میں واپس آگئے۔ ہم تیر تیر کر خوب تھک چکے تھے۔ اس لئے بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ہم نے سیر ہوکر کھایا اور کچھ دیر ریت پر لیٹ گئے اور گپ بازی کرنے لگے۔ چاربجے ہم نے چائے پی۔ پھر ہم سب کھیلنے اور سیپیاں جمع کرنے پانی کے قریب گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی، عزم اور لطف اندوز ہوائیں چل رہی تھےں۔ ہم میں سے چند نے پھر تیرنا شروع کردیا۔ غرض ان مشاغل میں دن ڈھل گیا اور موجیں زور زور سے اٹھنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ پانی کی اونچی اونچی دیواریں یکے بعد ساحل کی طرف بڑھ رہی ہیں اور جیسے تماشائیوں کے ہجوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
دن بھر کا تھکا ماندا آفتاب افقِ مغرب کی اوٹ میں سرنگوں تھا۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا طبیعت میں کسل مندی پیدا کررہی تھی اور آسمان کے کنارے شفق رنگین بڑے دیدہ زیب نظر آرہے تھے۔ دور تک سرخ دھاریں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے عروسِ شام رنگین آنچل سے ڈھلک گئی ہو۔ ہم کافی دیر سے غروبِ آفتاب کے اسی روح پرور نظاری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ آخر شام کی سیاہی بڑھی اور ہم سارے دوست ہٹ میں واپس آگئے اور دسترخوان کے گرد بیٹھ گئے اور کھانے کی اشیاءپر ٹوٹ پڑے۔
ویگن پر سوارہوکر واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے میں ہم بہت تھک چکے تھے۔ مگر اس میں ایک کیف و سرور کا احساس شامل تھا۔ ساحلِ سمندر پر گزری ہوئی یہ شام ہمارے لئے ایسے جلووں، ایسی دلآویزی و دلکشی اور سامانِ فرحت رکھتی ہے کہ اس کی یاد ہمیں کبھی نہیں بھولتی۔
تعلیمِ نسواں
دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مردوزن کے لئے لازمی امر ہے۔ ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے۔ اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی ہے۔ خواہ اس کے لئے دوردراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط محنت اور لگن ہے۔ زندگی کی اقدار میں نکھار اور وقار علم سے ہی آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے۔ گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے۔
خواتین کے فرائض مےں سے ایک اہم فریضہ بچوں کی پرورش، ان کی نگہداشت اور صحیح تربیت ہوتی ہے۔ بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار ہو تو اولاد بھی صاحبِ علم اور مہذب ہوگی۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب و اطوار حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنی اولاد کے خیالات اور کردار کو سنوارنے کی ذمہ دار ہوتی ہے جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہونگی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔
اسی لئے کہتے ہیں کہ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ماں ہی قوم کی اس امانت میں اخلاقی ہمدردی اور ایثار پیدا کرکے جذبہ جب الوطنی بیدار کرتی ہے۔ باپ بھی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن فکرِ معاش کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنا پورا وقت نہیں دے سکتا۔ اسی لئے بچوں کی پرورش کی اصل ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں جو ابتدائی تہذیب سکھاتی ہے۔ یہی بڑے ہوکر اسکی فطرت مین راسخ ہوجاتی ہے۔
اگر صلاحیتوں اور ذہانت کا مقابلہ کیا جائے تو عورتیں مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہوتیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اب تک کئی خواتین اقتدارِ سلطنت حاصل کرچکی ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ کارنامے انجام دئیے وہ سب تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں، صاحب عقل حضرات کی سمجھ میں یہ بات آنی جاہئے کہ عورتوں کی تعلیم کو صرف ناظرہ و قرآن مجید تک محدود رکھنا اور دیگر علوم سے دور رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ بعض حضرات کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں فیشن پرست ہوجاتی ہےں، فضول خرچی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور اپنے فرائض کی انجام دہی صحیح طریقے سے نہیں کرپاتیں۔ لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ یہ تمام عادات کسی کو گھریلو ماحول سے ملتی ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ اگر ہم انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول مےں تعلیم دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم نسواں معاشرہ میں کسی بگاڑ کا باعث بنے۔ اس طرح سے حصلہ افزاءنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
پس ہمیں چاہیے کہ قدرت نے عورت کو جو فطری صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ان کو بروئے کار لایا جائے اسی طرح ان میں وہ مطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں جو خوش آئندہ مستقبل کی ضمانت ہیں۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے۔ اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی ہے۔ خواہ اس کے لئے دوردراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط محنت اور لگن ہے۔ زندگی کی اقدار میں نکھار اور وقار علم سے ہی آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے۔ گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے۔
خواتین کے فرائض مےں سے ایک اہم فریضہ بچوں کی پرورش، ان کی نگہداشت اور صحیح تربیت ہوتی ہے۔ بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار ہو تو اولاد بھی صاحبِ علم اور مہذب ہوگی۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب و اطوار حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنی اولاد کے خیالات اور کردار کو سنوارنے کی ذمہ دار ہوتی ہے جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہونگی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔
اسی لئے کہتے ہیں کہ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ماں ہی قوم کی اس امانت میں اخلاقی ہمدردی اور ایثار پیدا کرکے جذبہ جب الوطنی بیدار کرتی ہے۔ باپ بھی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن فکرِ معاش کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنا پورا وقت نہیں دے سکتا۔ اسی لئے بچوں کی پرورش کی اصل ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں جو ابتدائی تہذیب سکھاتی ہے۔ یہی بڑے ہوکر اسکی فطرت مین راسخ ہوجاتی ہے۔
اگر صلاحیتوں اور ذہانت کا مقابلہ کیا جائے تو عورتیں مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہوتیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اب تک کئی خواتین اقتدارِ سلطنت حاصل کرچکی ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ کارنامے انجام دئیے وہ سب تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں، صاحب عقل حضرات کی سمجھ میں یہ بات آنی جاہئے کہ عورتوں کی تعلیم کو صرف ناظرہ و قرآن مجید تک محدود رکھنا اور دیگر علوم سے دور رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ بعض حضرات کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں فیشن پرست ہوجاتی ہےں، فضول خرچی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور اپنے فرائض کی انجام دہی صحیح طریقے سے نہیں کرپاتیں۔ لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ یہ تمام عادات کسی کو گھریلو ماحول سے ملتی ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ اگر ہم انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول مےں تعلیم دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم نسواں معاشرہ میں کسی بگاڑ کا باعث بنے۔ اس طرح سے حصلہ افزاءنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
پس ہمیں چاہیے کہ قدرت نے عورت کو جو فطری صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ان کو بروئے کار لایا جائے اسی طرح ان میں وہ مطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں جو خوش آئندہ مستقبل کی ضمانت ہیں۔
ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتا
ہمت، تحمل اور بردباری کا مطلب کسی کام کو پختگ�· ارادہ سے انجام دینا اور اس کام کو پایہ�¿ تکمیل تک پہنچانے میں جو دشواریاں اور مشکلات آئیں۔ انہیں برداشت کرکے ثابت قدم رہنا ہے۔ ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے۔ہمت کے استعمال سے گریز کرنے والا انسان سستی، کاہلی اور نکمے پن کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کیں ہیں۔ اس کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم درجے پر پہنچا دیتا ہے
مشکلے سنیت کہ آسان نشود
مرد باید کہ ہر اساں نشود
دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق ق تجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلیفون اور ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا
ہمت، محنت، استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و مہ اور قلمکار اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے کے لئے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتاسوائے ان کاموں کے جو اللہ تعالی کی ذات کے مخصوص ہیں۔ مثلاً تخلیقِ کائنات صرف خداوندِ کریم ہی کرسکتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ زمین و آسمان، کوہسار و یگزار اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔
ہمت کے آگے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ ہمت میں لغزش پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔ طارق بن زیاد نے اپنی ہمت و شجاعت کا عملی مظاہرہ کیا، جنگِ بدر میں مجاہدینِ اسلام نے اس کا عملی ثبوت دیا ، اندلس کی سرزمین مسلمانوں کی ہمت و عظمت کی گواہ ہے اور افغانستان سے روسیوں کا انخلاءعظم و ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مارے عظیم رہنما قائد اعظم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ایک طرف انگریزوں کی مکاری اور چابازی تھی تو دوسری طرف ہندو�¶ں کا تعصب تھا۔ ستم بالاستم اپنوں میں بھی بیگانے موجود تھے۔ قائدِ اعظم اور دیگر رہنما�¶ں نے بشمول برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ہمت اور عزم سے کام لیا اور ثابت قدم رہے۔ شجاعت و بردباری سے ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر خدا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح دنیا کی دیگر بڑی بڑی ہستیوں کی سوانح حیات کا مطالعہ ہمیں ان کی کامیابی میں پنہاں راز تک پہنچا دے گا جو کہ ہمت و استقلال میں پوشیدہ ہے۔
قائدِ اعظم کا قول ہے کہ:
کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے مجھے ایسا کرنا چاہئے۔ جب تمہارا ذہن فیصلہ دے دے کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مضمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرلو۔ اس بات سے نہ گھبرا کے راستے میں مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں ہونگی، دشمنوں کی مخالفت ہوگی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جاو۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔
بقول شاعر
وہ کون سا عقیدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
مشکلے سنیت کہ آسان نشود
مرد باید کہ ہر اساں نشود
دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق ق تجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلیفون اور ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا
ہمت، محنت، استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و مہ اور قلمکار اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے کے لئے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتاسوائے ان کاموں کے جو اللہ تعالی کی ذات کے مخصوص ہیں۔ مثلاً تخلیقِ کائنات صرف خداوندِ کریم ہی کرسکتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ زمین و آسمان، کوہسار و یگزار اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔
ہمت کے آگے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ ہمت میں لغزش پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔ طارق بن زیاد نے اپنی ہمت و شجاعت کا عملی مظاہرہ کیا، جنگِ بدر میں مجاہدینِ اسلام نے اس کا عملی ثبوت دیا ، اندلس کی سرزمین مسلمانوں کی ہمت و عظمت کی گواہ ہے اور افغانستان سے روسیوں کا انخلاءعظم و ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مارے عظیم رہنما قائد اعظم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ایک طرف انگریزوں کی مکاری اور چابازی تھی تو دوسری طرف ہندو�¶ں کا تعصب تھا۔ ستم بالاستم اپنوں میں بھی بیگانے موجود تھے۔ قائدِ اعظم اور دیگر رہنما�¶ں نے بشمول برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ہمت اور عزم سے کام لیا اور ثابت قدم رہے۔ شجاعت و بردباری سے ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر خدا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح دنیا کی دیگر بڑی بڑی ہستیوں کی سوانح حیات کا مطالعہ ہمیں ان کی کامیابی میں پنہاں راز تک پہنچا دے گا جو کہ ہمت و استقلال میں پوشیدہ ہے۔
قائدِ اعظم کا قول ہے کہ:
کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے مجھے ایسا کرنا چاہئے۔ جب تمہارا ذہن فیصلہ دے دے کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مضمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرلو۔ اس بات سے نہ گھبرا کے راستے میں مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں ہونگی، دشمنوں کی مخالفت ہوگی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جاو۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔
بقول شاعر
وہ کون سا عقیدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
عجائب گھر
عجائب گھر کا نام اس کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کا نام ہی اس کی طرز کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ نہ جانے یہ مقام کیسی کیسی عجیب و غریب چیزوں کا گھر گو۔ عجائب گھر کا نام ہمارے لئے بھی باعثِ تجسس تھا۔ اسی لئے ہم نے بھی ایک دن لاہور کا عجائب گھر دیکھنے کی ٹھانی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور شہر میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھا۔ ہم تمام دوستوں نے صلاح و مشورے سے یہ تجویز کیا کہ جمعہ کے دن عجائب گھر کی سیر کو چلیں گے۔ باقی دوستوں کو تو اپنے والدین سے باآسانی اجازت مل گئی لیکن ہمیں ذرا مشکل پیش آئی بہرحال یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
ہمارے ایک استاد بھی ہمارے ساتھ عجائب گھر جانے کو تیار ہوگئے تھے۔ جمعہ کے دن ہم تمام دوست اپنے استاد محترم جمال صاحب کے ساتھ عجائب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً گیارہ بجے ہم لوگ عجائب گھرکے دروازے پر تھے۔ عجائب گھر ایک بہت ہی کھلی اور خوبصورت سڑک کے کنارے واقع ہے اس کی عمارت بڑی شاندار ہے اور اردگرد باغیچہ ہے۔ اس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے۔ ہم نے ٹکٹیں خریدں اور عجائب گھر میں داخل ہوگئے۔
عجائب گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ایسا ہے جہاں پرانے زمانے کے مٹی کے بنے ہوئے برتن، کھلونے، مورتیاں اور ایسی چیزیں اور ہتھیار موجود ہیں جو اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ تمام اشیاءدھات کے زمانے سے بھی قبل کی ہیں۔ دوسرے حصے میں لکڑی کی اشیاءہیں جن میں مہاتما بدھ کا مجسمہ قابلِ ذکر ہے۔ وہاں کی ہرشے اپنے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ تمام اشیاءپر ان کے مختصر کوائف درج ہوتے ہیں۔ اور احتیاط کے پیشِ نظر ان اشیاع کو چھونے کی ممانعت ہوتی ہے کہ ہاتھ لگانے سے ان نوادرات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان پر لگے ہوئے کیمکلز سے ہمیں بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
مسلمانوں کے دورِ حکومت نے بھی نوادرات کا بیش بہا خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ جابجا سامانِ حرب، ذرہ بکتر اور لباس بھی رکھے وہئے ہیں۔ یہ لباس اس قدر بھاری بھرکم نظرم آرہے تھے کہ انہیں پہن کر چلنا تو درکنار انہیں اٹھا کر چلنا بھی ہمارے لئے دشوار کام ہوتا۔ اس بات سے ہم نے پرانے لوگوں کی طاقت کا اندازہ لگایا کہ واقعی ان کی طاقت و شجاعت میں کوئی شک نہیں۔
ایک اورحصہ میں زمانہ قدیم کی مصنوعات تھیں جن میں اکثر عام پتھر اور سنگِ مرمر سے بنی ہوئی تھیں۔ اور ان اشیاءکو دیکھ کر اس زمانے کے کاریگروں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور محنت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اکثر مقامات پر کپڑوں کے نمونے نظر آتے ہیںجن پر نقاشی کی گئی ہے۔ عجائب گھر میں مختلف زمانے کے سکے بھی پڑے ہوئے ہیں جن پر لکھی ہوئی عبارت پڑھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ اسی طرح پتھروں پر بھی عبارتیں کھدی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کے قلمی نسخے بھی یہاں پر موجود ہیں جن کے رسم الخط نہایت عمدہ ہیں جو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
سیاحوں اور تاریخ دانوں کے لئے عجائب گھر بہت زیادہ کشش رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے سیاحت کے فروغ کے لئے عجائب گھر کا صحیح انتظام لازمی ہے۔
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
آج جو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے تقریباً ۵۴ سال پہلے یہاں کی یہ حالت تھی کہ یہاں پر مسلمان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ یہی وہ ملک ہے جہاں کی صدیوں پرانی شاندار تہذیب و ثقافت کو انگریزوں نے اپنے دستِ ستم سے بری طرح نقصان پہنچایا۔
مندرجہ بالا علامہ اقبال کا شعر جو کہ مسلم کی نگاہ کو تلوار کی حیثت سے دلکش انداز میں پیش کررہا ہے۔ اسی شعر کے موضوع پر ان حقیقی کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کے باعث ہم نے مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کیا۔ ویسے تو ان حالات کو بیان کرنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ مگر یہ بات بھی ایک حقیقت کہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر ایک سو سال تک حکومت کی تھی اور ان کے بعض حکمران کی غفلت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور اغیار کا تسلط قائم ہوگیا اور پورے ہندوستان پر وہ انگریز تاجر جو کہ وہاں صرف تجارت کی غرض سے آئے تھے حاکم بن کر بیٹھ گئے اور وہاں کے باسیوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتے لگے۔
ایسے کڑے وقت میں ہندووں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور پوری مسلم قوم ایک ایسے شکنجے میں جکڑ گئی جو کہیں سے کھلا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ مسلمانوں کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ قدرت کسی قوم کی اجتماعی برائیوں اور گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور بلاوجہ کسی قوم کو دیئے گئے اعزازات نہیں چینتی۔ ایسے مشکلات سے گھرے ہوئے دور میں قائدِ اعظم وہ واحد ہستی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو گمراہی اور غلامی کے کنویں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائی اور ان کا پورا پورا ساتھ مسلمانوں اور وقت کے عظیم لیڈر اور قومی شاعر علامہ اقبال نے دیا۔ علامہ اقبال نے اپنی پوری شاعری مسلمانوں کی اصلاح کے لئے وقف کردی۔ ان کی شاعری مسلمانوں کے لئے اندھیرے میں چراغ کا کام دے رہی تھی جس کی روشنی میں وہ اپنے کھوئے ہوئے راستوں کو دیکھر کر منزل کی جانب قدم بقدم بڑھ رہے تھے۔
علامہ اقبال کے خیال میں مسلمانوں کے اپنے ایمان کی وجہ سے قوتِ ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ مسلمان کی نگاہ سے وہ مشکل کام کیا جاسکتا ہے جو کہ تلوار اور ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے۔ مسلم کے معنی ہیں مان لینے والا یا ”سر تسلیم خم کرنے والا“ اور پھر مسلم سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ رب العزت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کو مانے اور اور ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس کے علاوہ مسلمانوں کی خودی کی تعریف کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
شاعری میں اقبال نے مسلمانوں کی مدد کے لئے خداوند تعالی سے مدد مانگی اور مسلمانوں کے لئے جو اپنی راہ کھو کر غلط قسم کی تفریحات میں مشغول تھے۔ سیدھے راستے پر چلانے کی دعا کرتے ہوئے بے شمار اشعار کہے۔ ان کی اور قائدِ اعظم کی اور برصغیر کے دیگر مسلمانوںکی کوششوں سے مملکت خدادادِ پاکستان، ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو وجود میںآیا۔ پاکستان جیسی نعمت ہمیں اتحادو اتفاق جیسی صفات عمل کرکے اپنی زندگی حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف بسر کریں اور اپنے بہادر جرنیلوں خالد بن ولید، عبیدہ بن جراح ، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمود غزنوی، طارق بن زیاد، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، اور قائدِ
ہمارے ایک استاد بھی ہمارے ساتھ عجائب گھر جانے کو تیار ہوگئے تھے۔ جمعہ کے دن ہم تمام دوست اپنے استاد محترم جمال صاحب کے ساتھ عجائب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً گیارہ بجے ہم لوگ عجائب گھرکے دروازے پر تھے۔ عجائب گھر ایک بہت ہی کھلی اور خوبصورت سڑک کے کنارے واقع ہے اس کی عمارت بڑی شاندار ہے اور اردگرد باغیچہ ہے۔ اس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے۔ ہم نے ٹکٹیں خریدں اور عجائب گھر میں داخل ہوگئے۔
عجائب گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ایسا ہے جہاں پرانے زمانے کے مٹی کے بنے ہوئے برتن، کھلونے، مورتیاں اور ایسی چیزیں اور ہتھیار موجود ہیں جو اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ تمام اشیاءدھات کے زمانے سے بھی قبل کی ہیں۔ دوسرے حصے میں لکڑی کی اشیاءہیں جن میں مہاتما بدھ کا مجسمہ قابلِ ذکر ہے۔ وہاں کی ہرشے اپنے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ تمام اشیاءپر ان کے مختصر کوائف درج ہوتے ہیں۔ اور احتیاط کے پیشِ نظر ان اشیاع کو چھونے کی ممانعت ہوتی ہے کہ ہاتھ لگانے سے ان نوادرات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان پر لگے ہوئے کیمکلز سے ہمیں بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
مسلمانوں کے دورِ حکومت نے بھی نوادرات کا بیش بہا خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ جابجا سامانِ حرب، ذرہ بکتر اور لباس بھی رکھے وہئے ہیں۔ یہ لباس اس قدر بھاری بھرکم نظرم آرہے تھے کہ انہیں پہن کر چلنا تو درکنار انہیں اٹھا کر چلنا بھی ہمارے لئے دشوار کام ہوتا۔ اس بات سے ہم نے پرانے لوگوں کی طاقت کا اندازہ لگایا کہ واقعی ان کی طاقت و شجاعت میں کوئی شک نہیں۔
ایک اورحصہ میں زمانہ قدیم کی مصنوعات تھیں جن میں اکثر عام پتھر اور سنگِ مرمر سے بنی ہوئی تھیں۔ اور ان اشیاءکو دیکھ کر اس زمانے کے کاریگروں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور محنت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اکثر مقامات پر کپڑوں کے نمونے نظر آتے ہیںجن پر نقاشی کی گئی ہے۔ عجائب گھر میں مختلف زمانے کے سکے بھی پڑے ہوئے ہیں جن پر لکھی ہوئی عبارت پڑھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ اسی طرح پتھروں پر بھی عبارتیں کھدی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کے قلمی نسخے بھی یہاں پر موجود ہیں جن کے رسم الخط نہایت عمدہ ہیں جو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
سیاحوں اور تاریخ دانوں کے لئے عجائب گھر بہت زیادہ کشش رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے سیاحت کے فروغ کے لئے عجائب گھر کا صحیح انتظام لازمی ہے۔
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
آج جو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے تقریباً ۵۴ سال پہلے یہاں کی یہ حالت تھی کہ یہاں پر مسلمان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ یہی وہ ملک ہے جہاں کی صدیوں پرانی شاندار تہذیب و ثقافت کو انگریزوں نے اپنے دستِ ستم سے بری طرح نقصان پہنچایا۔
مندرجہ بالا علامہ اقبال کا شعر جو کہ مسلم کی نگاہ کو تلوار کی حیثت سے دلکش انداز میں پیش کررہا ہے۔ اسی شعر کے موضوع پر ان حقیقی کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کے باعث ہم نے مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کیا۔ ویسے تو ان حالات کو بیان کرنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ مگر یہ بات بھی ایک حقیقت کہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر ایک سو سال تک حکومت کی تھی اور ان کے بعض حکمران کی غفلت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور اغیار کا تسلط قائم ہوگیا اور پورے ہندوستان پر وہ انگریز تاجر جو کہ وہاں صرف تجارت کی غرض سے آئے تھے حاکم بن کر بیٹھ گئے اور وہاں کے باسیوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتے لگے۔
ایسے کڑے وقت میں ہندووں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور پوری مسلم قوم ایک ایسے شکنجے میں جکڑ گئی جو کہیں سے کھلا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ مسلمانوں کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ قدرت کسی قوم کی اجتماعی برائیوں اور گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور بلاوجہ کسی قوم کو دیئے گئے اعزازات نہیں چینتی۔ ایسے مشکلات سے گھرے ہوئے دور میں قائدِ اعظم وہ واحد ہستی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو گمراہی اور غلامی کے کنویں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائی اور ان کا پورا پورا ساتھ مسلمانوں اور وقت کے عظیم لیڈر اور قومی شاعر علامہ اقبال نے دیا۔ علامہ اقبال نے اپنی پوری شاعری مسلمانوں کی اصلاح کے لئے وقف کردی۔ ان کی شاعری مسلمانوں کے لئے اندھیرے میں چراغ کا کام دے رہی تھی جس کی روشنی میں وہ اپنے کھوئے ہوئے راستوں کو دیکھر کر منزل کی جانب قدم بقدم بڑھ رہے تھے۔
علامہ اقبال کے خیال میں مسلمانوں کے اپنے ایمان کی وجہ سے قوتِ ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ مسلمان کی نگاہ سے وہ مشکل کام کیا جاسکتا ہے جو کہ تلوار اور ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے۔ مسلم کے معنی ہیں مان لینے والا یا ”سر تسلیم خم کرنے والا“ اور پھر مسلم سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ رب العزت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کو مانے اور اور ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس کے علاوہ مسلمانوں کی خودی کی تعریف کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
شاعری میں اقبال نے مسلمانوں کی مدد کے لئے خداوند تعالی سے مدد مانگی اور مسلمانوں کے لئے جو اپنی راہ کھو کر غلط قسم کی تفریحات میں مشغول تھے۔ سیدھے راستے پر چلانے کی دعا کرتے ہوئے بے شمار اشعار کہے۔ ان کی اور قائدِ اعظم کی اور برصغیر کے دیگر مسلمانوںکی کوششوں سے مملکت خدادادِ پاکستان، ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو وجود میںآیا۔ پاکستان جیسی نعمت ہمیں اتحادو اتفاق جیسی صفات عمل کرکے اپنی زندگی حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف بسر کریں اور اپنے بہادر جرنیلوں خالد بن ولید، عبیدہ بن جراح ، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمود غزنوی، طارق بن زیاد، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، اور قائدِ
اعظم غرض انہی کی طرح اپنی زندگی کو اسلام کے لئے وقف کردیں۔
سائنس رحمت بھی اور زحمت بھی
سائنس کے لغوی معنی کوئی باقاعدہ علم و حکمت ہے۔ لیکن اصطلاح میں اس سے مراد موجود اتِ عالم کی علمی تحقیقات اور اس پر تفصیلی بحث ہے۔ سائنس وہ مطالعہ قدرت ہے جو قدرت کی رنگینیوں میں گونگوں تبدیلی کے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اہلِ امریکہ! اور یورپ کا خیال ہی کہ سائنس دورِ حاضر کی خصوصیت ہے۔ لیکن اگر ہم اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہم یہ دیکھ کر حیران ہوجائیں گے کہ اکثر ایجادات کے ابتدائی اصول مسلمانوں نے ہی وضع کئے لیکن سالہا سال کی غلامی نے ہمیں اسلامی تاریخ سے بیگانہ بنادیا ہے اور ہم سے اکثر صاحب لعلِ یورپ کے اس دعوے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم اس بات سے انکار بھی نہیں کرسکتے کہ موجودہ سائنس کی ترقی کا زیادہ تر سہرا مغرب کے سر ہے۔
ہوا، پانی، آگ اور روشنی وغیرہ کے عناصر کو قابو میں لاکر سائنس نے بنی نوع انسان کی گراں مایہ خدمات انجام دیں ہیں۔ ویسے تو سائنس کے فوائد بے شمار ہیں اور اسے کے صرف عمل ہی لکھنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں یہ جائیکہ
مفصل:
سائنس کی بدولت ایسی ایسی ایجادات اختراعات ہوچکی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موٹر، ریل گاڑی، ہوا جہاز اور بہری جہاز کے ذریعے فاصلہ نہایت ہی کم وقت میں طے ہوجاتا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہم دنیا بھر کے حالات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ٹیلیفون کی مدد سے چند منٹوں مےں ایک دوسرے کی خیرخیریت سے آگاہی ہوجاتی ہے، بجلی کی ایجاد کو دیکھا جائے، جس نے صنعتی انقلاب برپا کردیا۔ کارخانوں، گھروں اور دفاتر مےں اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ ہیٹروں، مشینوں اور لیمپوں اور اسی قسم کی دوسری ایجادات سے ہم فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سائند کی بدولت بنی نوع انسان کی بیماریوں کے علاج معالجے سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ اور عملِ جراحی کے ذریعے لاکھوں جانیں بچائیں جاتی ہیں۔ ایکسرے کے ذریعے ناقابلِ تشخیص بیماریوںکا پتہ چلایا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ بازار میں بھی ہر قسم کی ادویات دستیاب ہیں۔ دورِ حاضر کی جدید ترین دریافت ایٹمی توانائی ہے جس کی بدولت صنعت، ذراعت اور طب کے میدانوں میں نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ ایک وقت میں ہزار آدمی جو کام کرتے ہےں۔ اب وہی کام انتہائی کم افراد انجام دیتے ہیں۔
اگر تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو جہاں سائنس نے بنی نوع انسان کو اس قدر فوائدِ کثیر پہنچائے ہیں وہاں طرزِ جنگ و جدل بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔ انسانوں کے پرانے ہتھیار بالکل بے کار ہوچکے ہیں۔ آج کل تو یوں ٹینکوں، میزائلوں، آبدوزوں اور لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے جس سے لاکھوں جانیں تلف ہورہی ہیں۔ آجکل ایٹم بم کا زمانہ ہے جس کی ہلاکت آفرینی ہے اور جس کی تباہی کے تصویر سے ہی رنگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی ایٹم بم سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ جس کی روشنی سے لوگ اندھے ہوجاتے ہیں، میلوں دور کھڑے ہوئے آدمی کے کان کے پردے اس کی آواز سے پھٹ جاتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی اورہیروشیما پر ایٹم بم گرائے۔ جس سے لاکھوں جانیں تلف ہوگئیں اور آج بھی وہاں جو بچے پیدا ہوتے ہےں تو کسی کے کان نہیں ہوتے، تو کوئی نابینا ہے اور کوئی اپاہج پیدا ہورہا ہے۔
سائنس کا ایک اور برا اثر یہ ہے کہ لوگ سائنس کے کرشموں کو دیکھ کر مادہ پرست ہوتے جارہے ہےں اور اطمینانِ قلب ختم ہوتا جا رہا ہے۔
مندرجہ بالا باتوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سائنس انسانوں کے لئے رحمت ہے کیونکہ اگر انسان چاہے تو صرف اس سے فوائد اٹھا سکتا ہے۔ یہ اس کی کم عقلی ہے کہ وہ نقصانات کا بھی خیر مقدم کرتا ہے۔
رب کریم ہمیں زیادہ سے زیادہ سائنس کے فوائد اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہوا، پانی، آگ اور روشنی وغیرہ کے عناصر کو قابو میں لاکر سائنس نے بنی نوع انسان کی گراں مایہ خدمات انجام دیں ہیں۔ ویسے تو سائنس کے فوائد بے شمار ہیں اور اسے کے صرف عمل ہی لکھنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں یہ جائیکہ
مفصل:
سائنس کی بدولت ایسی ایسی ایجادات اختراعات ہوچکی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موٹر، ریل گاڑی، ہوا جہاز اور بہری جہاز کے ذریعے فاصلہ نہایت ہی کم وقت میں طے ہوجاتا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہم دنیا بھر کے حالات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ٹیلیفون کی مدد سے چند منٹوں مےں ایک دوسرے کی خیرخیریت سے آگاہی ہوجاتی ہے، بجلی کی ایجاد کو دیکھا جائے، جس نے صنعتی انقلاب برپا کردیا۔ کارخانوں، گھروں اور دفاتر مےں اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ ہیٹروں، مشینوں اور لیمپوں اور اسی قسم کی دوسری ایجادات سے ہم فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سائند کی بدولت بنی نوع انسان کی بیماریوں کے علاج معالجے سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ اور عملِ جراحی کے ذریعے لاکھوں جانیں بچائیں جاتی ہیں۔ ایکسرے کے ذریعے ناقابلِ تشخیص بیماریوںکا پتہ چلایا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ بازار میں بھی ہر قسم کی ادویات دستیاب ہیں۔ دورِ حاضر کی جدید ترین دریافت ایٹمی توانائی ہے جس کی بدولت صنعت، ذراعت اور طب کے میدانوں میں نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ ایک وقت میں ہزار آدمی جو کام کرتے ہےں۔ اب وہی کام انتہائی کم افراد انجام دیتے ہیں۔
اگر تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو جہاں سائنس نے بنی نوع انسان کو اس قدر فوائدِ کثیر پہنچائے ہیں وہاں طرزِ جنگ و جدل بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔ انسانوں کے پرانے ہتھیار بالکل بے کار ہوچکے ہیں۔ آج کل تو یوں ٹینکوں، میزائلوں، آبدوزوں اور لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے جس سے لاکھوں جانیں تلف ہورہی ہیں۔ آجکل ایٹم بم کا زمانہ ہے جس کی ہلاکت آفرینی ہے اور جس کی تباہی کے تصویر سے ہی رنگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی ایٹم بم سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ جس کی روشنی سے لوگ اندھے ہوجاتے ہیں، میلوں دور کھڑے ہوئے آدمی کے کان کے پردے اس کی آواز سے پھٹ جاتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی اورہیروشیما پر ایٹم بم گرائے۔ جس سے لاکھوں جانیں تلف ہوگئیں اور آج بھی وہاں جو بچے پیدا ہوتے ہےں تو کسی کے کان نہیں ہوتے، تو کوئی نابینا ہے اور کوئی اپاہج پیدا ہورہا ہے۔
سائنس کا ایک اور برا اثر یہ ہے کہ لوگ سائنس کے کرشموں کو دیکھ کر مادہ پرست ہوتے جارہے ہےں اور اطمینانِ قلب ختم ہوتا جا رہا ہے۔
مندرجہ بالا باتوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سائنس انسانوں کے لئے رحمت ہے کیونکہ اگر انسان چاہے تو صرف اس سے فوائد اٹھا سکتا ہے۔ یہ اس کی کم عقلی ہے کہ وہ نقصانات کا بھی خیر مقدم کرتا ہے۔
رب کریم ہمیں زیادہ سے زیادہ سائنس کے فوائد اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے حکیم الامت شعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے اور سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے، ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی حدود متعین کی ہوئی ہیں۔ جن کے اندر رہ کر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور جہاں تک خدا چاہتا ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مفلسی اور امیری بھی اللہ نے انسانوں کے اختیار میں کی ہے جس نے عمل کیا کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسی ترقی ملی ہے۔ جس نے عمل کیا، کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسے ترقی ملی ہے۔
اللہ تعالی خود فرماتا ہے:
انسان کے لئے کچھ نہیں سوائے اس کے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔
کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد، شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قسمت بنی بنائی نہیں ہوتی بلکہ قسمت انسان خود بناتا ہے اگر اس کے مقاصد نیک ہوں تو باتدبیر عمل، صحیح سمت، محنت، لگن اور دیانت داری کے ذریعے وہ اپنی منزل ِ مقصود تک ضرور پہنچ جائے گا اور اس میں خدا اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ اگر انسان کوتاہیوں اور غلط منصوبہ بندی سے کام لے گا تو اس کے لئے اپنے مقاصد کا حصول بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
صاحبِ عقل و فہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کا راز عمل میں پنہاں ہے۔ کم ہمت لوگ جو کاہلی، تلون مزاجی اور بزدلی کی وجہ سے ناکام رہ جاتے ہیں۔ تقدیر کو مورودِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ سراسر غلط ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان کوشش ترک کردے اور تقدیر پر سب کچھ چھوڑ دے۔ صاحبِ علم و فراست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر آنے والے لمحے سے وابستہ داستانِ ”لوح ِ محفوظ“ میں قلمبند ہے جو کچھ ہم کریں گے وہ اس مےں لکھا ہے کم عقل حضرات اس سے یہ اندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ خواہ ہم کچھ بھی کرلیں وہی کچھ ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ سوچنا سراسر غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی کام کے کرنے کے لئے پابند کردیا گیا ہے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنے عزم و استقلال اور ہمت و جوانمردی سے تدبیرو عمل کے ذریعے اپنے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ عزت، شہرت، شان و شوکت غرض سب کچھ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے حاصل کرتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمت و استقلال پر قائم رہتا ہے اور اپنے ارادوں کو چٹان کی طرح مضبوط رکھتا ہے۔ ہر کامیاب انسان اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا۔ فضول گفتار میں وقت جیسی اہم چےز کو برباد نہیں کرتا۔ تمام اہلِ شہرت و عزت کی کامیابی کا راز عمل ہے۔ ان کی زدنگی سے ہمیں دعوتِ عمل ملتی ہے۔
پس انسان کی زندگی اس کے اپنے اعمال و کردار سے بنتی ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے حکیم الامت شعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے اور سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے، ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی حدود متعین کی ہوئی ہیں۔ جن کے اندر رہ کر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور جہاں تک خدا چاہتا ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مفلسی اور امیری بھی اللہ نے انسانوں کے اختیار میں کی ہے جس نے عمل کیا کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسی ترقی ملی ہے۔ جس نے عمل کیا، کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسے ترقی ملی ہے۔
اللہ تعالی خود فرماتا ہے:
انسان کے لئے کچھ نہیں سوائے اس کے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔
کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد، شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قسمت بنی بنائی نہیں ہوتی بلکہ قسمت انسان خود بناتا ہے اگر اس کے مقاصد نیک ہوں تو باتدبیر عمل، صحیح سمت، محنت، لگن اور دیانت داری کے ذریعے وہ اپنی منزل ِ مقصود تک ضرور پہنچ جائے گا اور اس میں خدا اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ اگر انسان کوتاہیوں اور غلط منصوبہ بندی سے کام لے گا تو اس کے لئے اپنے مقاصد کا حصول بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
صاحبِ عقل و فہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کا راز عمل میں پنہاں ہے۔ کم ہمت لوگ جو کاہلی، تلون مزاجی اور بزدلی کی وجہ سے ناکام رہ جاتے ہیں۔ تقدیر کو مورودِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ سراسر غلط ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان کوشش ترک کردے اور تقدیر پر سب کچھ چھوڑ دے۔ صاحبِ علم و فراست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر آنے والے لمحے سے وابستہ داستانِ ”لوح ِ محفوظ“ میں قلمبند ہے جو کچھ ہم کریں گے وہ اس مےں لکھا ہے کم عقل حضرات اس سے یہ اندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ خواہ ہم کچھ بھی کرلیں وہی کچھ ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ سوچنا سراسر غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی کام کے کرنے کے لئے پابند کردیا گیا ہے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنے عزم و استقلال اور ہمت و جوانمردی سے تدبیرو عمل کے ذریعے اپنے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ عزت، شہرت، شان و شوکت غرض سب کچھ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے حاصل کرتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمت و استقلال پر قائم رہتا ہے اور اپنے ارادوں کو چٹان کی طرح مضبوط رکھتا ہے۔ ہر کامیاب انسان اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا۔ فضول گفتار میں وقت جیسی اہم چےز کو برباد نہیں کرتا۔ تمام اہلِ شہرت و عزت کی کامیابی کا راز عمل ہے۔ ان کی زدنگی سے ہمیں دعوتِ عمل ملتی ہے۔
پس انسان کی زندگی اس کے اپنے اعمال و کردار سے بنتی ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
علم بڑی دولت ہے
علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم بھی نہیں ہوتا۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
مہد سے لہد تک کی علم کی تلاش مےں لگے رہو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے اور جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں، انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے۔ فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔ آج کا انسان خلاءکی وسعتوں پر حاوی ہے، چاند پر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑھ چکا ہے، علم ہی کی بدولت وہ مظاہرِ قدرت جنہیں وہ پوجتا تھا۔ آج اس کی خاکِ راہ ہیں، علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کرکے آج ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔
یہ علم کا فیض ہے کہ انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔ بزرگانِ دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی ار سچی راہ دکھاتے رہے۔ علم کی بدولت ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے جس کا دوسرا کنارہ نظر سے دور اور بعید از قیاس ہے۔
دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ علم ہی دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرسکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا اور آج وہی انسان اس پر قابو پاچکا ہے۔ اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اطپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کرلیں ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوجاتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم ایسا بیش بہا جوہر۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جہاں حسد و بغض، دشمنی اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔
دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے علم کی بدولت ہی آج کا انسان خلاءکو مسخر کررہا ہے۔ علم انسان کو جرات، ہمت، استقلال، تدبر و بردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا، قطبِ شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین کو رندتا چلا گیا۔
علم ہی انسان کو باعزت، باوقار اور عظیم تر بناتا ہے اسی کی بدولت انسان اپنی اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ اب تک جتنے بھی بڑے آدمی گزرے ہیں وہ علم ہی کی بدولت ہی کمالِ عروج پر پہنچے، بڑے بڑے مراتب حاصل کئے۔ غرض سقراط ہو یا بقراط، بوعلی سینا ہوں یا فردوسی آج بھی ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرات علم کے سمندر کے مانند تھے اور ایسی دولت کے مالک تھے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تھا لیکن محنت اور کاوش کے بغیر اس کا حصول ناممکن تھا اور آج بھی ناممکن ہے اس لئے کہ:
علم بڑی دولت ہے۔
مہد سے لہد تک کی علم کی تلاش مےں لگے رہو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے اور جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں، انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے۔ فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔ آج کا انسان خلاءکی وسعتوں پر حاوی ہے، چاند پر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑھ چکا ہے، علم ہی کی بدولت وہ مظاہرِ قدرت جنہیں وہ پوجتا تھا۔ آج اس کی خاکِ راہ ہیں، علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کرکے آج ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔
یہ علم کا فیض ہے کہ انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔ بزرگانِ دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی ار سچی راہ دکھاتے رہے۔ علم کی بدولت ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے جس کا دوسرا کنارہ نظر سے دور اور بعید از قیاس ہے۔
دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ علم ہی دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرسکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا اور آج وہی انسان اس پر قابو پاچکا ہے۔ اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اطپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کرلیں ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوجاتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم ایسا بیش بہا جوہر۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جہاں حسد و بغض، دشمنی اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔
دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے علم کی بدولت ہی آج کا انسان خلاءکو مسخر کررہا ہے۔ علم انسان کو جرات، ہمت، استقلال، تدبر و بردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا، قطبِ شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین کو رندتا چلا گیا۔
علم ہی انسان کو باعزت، باوقار اور عظیم تر بناتا ہے اسی کی بدولت انسان اپنی اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ اب تک جتنے بھی بڑے آدمی گزرے ہیں وہ علم ہی کی بدولت ہی کمالِ عروج پر پہنچے، بڑے بڑے مراتب حاصل کئے۔ غرض سقراط ہو یا بقراط، بوعلی سینا ہوں یا فردوسی آج بھی ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرات علم کے سمندر کے مانند تھے اور ایسی دولت کے مالک تھے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تھا لیکن محنت اور کاوش کے بغیر اس کا حصول ناممکن تھا اور آج بھی ناممکن ہے اس لئے کہ:
علم بڑی دولت ہے۔
ہدایت دینے والی آواز۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
Reference and Meaning of Poems
اشعار کے حوالے اور معنے
فہرست مضامین
* حمد - محمد اسمعیل میرٹھی
* نعت - مولانا ظفر علی خان
* غزل - خواجہ میر درد
* غزل - حسرت موہانی
* غزل - جگر مراد آبادی
* ہنس نامہ
* وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
* جنگ یرموک کا ایک واقع
* صحرا کی دعا
* صبع کا سماں
* نعت - مولانا ظفر علی خان
* غزل - خواجہ میر درد
* غزل - حسرت موہانی
* غزل - جگر مراد آبادی
* ہنس نامہ
* وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
* جنگ یرموک کا ایک واقع
* صحرا کی دعا
* صبع کا سماں
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems
اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
حمد - محمد اسمعیل میرٹھی
شعر
خدایا اول و آخر بھی تو ہے
خدایا (باطن و ظاہر) بھی تو ہے
حوالہ
خدایا (باطن و ظاہر) بھی تو ہے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب محمد اسمعیل میرٹھی کی حمد سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
باطن کے معنی ہیں چھپا ہوا اورظاہر کے معنی ہیں نظرآنے والا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
ان الفاظ سے اللہ تعالی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کائنات میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ بھی اور جو کچھ ہماری نظروں سے اوجھل ہے وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ وہ ہی ہرچیز سے ظاہر ہوتا ہے اور اسی کا نور ہر شے میں پوشیدہ ہے۔
شعر
زمین و آسماں کا نور ہے تو
مگر خود (ناظرومنظور) ہے تو
حوالہ
مگر خود (ناظرومنظور) ہے تو
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب محمد اسمعیل میرٹھی کی حمد سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
نظر کے معنی ہیں دیکھنے والا اور منظور کے معنی ہے دکھانے والا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے پس منظرمیںاس ترکیب سے مراد اللہ تعالی ہے۔ اللہ کو ناظر اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ کائنات کی ہرشے کو دیکھتا ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ سے اپنے آپ کو چھپا سکے۔منظور اللہ تعالی کو اس لئے کہا گیا ہے کہ جو کجھ بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے اس میں اللہ تعالی کا ہی حسن نظر آتا ہے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
صبح کا سماں
شعر
وہ صبح اور وہ چھاوں ستاروں کی اور وہ نور
دیکھے تو غش کرے (ارنی گوئے اوجِ طور)
حوالہ
دیکھے تو غش کرے (ارنی گوئے اوجِ طور)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب میر انیس کے مرثیےصبح کا سماں سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
حضرت موسیٰ عہ
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
حضرت موسیٰ عہ نے کوہِ طور پر چڑھ کر اللہ تعالی کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر حضرت موسیٰ عہ بھی اس صبح کے منظر کو دیکھیں تو اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے حواس کھوبیٹھیں گے۔
شعر
ہیرے خجل تھے (گوہرِ یکتا) نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
حوالہ
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب میر انیس کے مرثیےصبح کا سماں سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
بے مثال موتی۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
یہاں شبنم کے قطروں کی طرف اشارہ ہے جو پھولوں اور پتیوں پر موتیوں کی طرح جھلملا رہے ہیں۔
شعر
گلشن خجل تھے (وادی مینو اساس) سے
جنگل تھا سب بسا ہوا پھولوں کی باس سے
حوالہ
جنگل تھا سب بسا ہوا پھولوں کی باس سے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب میر انیس کے مرثیےصبح کا سماں سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
ایسی وادی جو جنت کی طرح ہو۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے حوالے سے مراد ہے کہ اس وادی کے حسن کا یہ عالم تھا کہ معلوم ہوتا تھا گویا کسی نے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یہاں لاکر رکھ دیا ہو۔
شعر
ٹھنڈی ہوا میں سبزہ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے (اطلسِ زنگاری فلک)
حوالہ
شرمائے جس سے (اطلسِ زنگاری فلک)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب میر انیس کے مرثیےصبح کا سماں سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
اطلس ایک نہایت قیمتی ریشمی ہوتا ہے۔ اس پر اگر سونے کے تاروں سے بیل بوٹے بنادیئے جائیں تو اس کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
یہاں اس ترکیب سے اشارہ آسمان کی طرف ہے کہ نیلے آسمان پر سورج کی زرد کرنیں ایسی ہیں جیسے اطلس پر سونے کے تاروں سے کام کیا گیا ہو۔
شعر
وہ دشت و نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ (گہر ہائے آبدار)
حوالہ
پھولوں پہ جابجا وہ (گہر ہائے آبدار)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب میر انیس کے مرثیےصبح کا سماں سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
چمکدار موتی۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے حوالے سے مراد ہے کہ جب شبنم کے قطرے پھولوں پر جمع ہوتے ہیں تو بالکل ایسا لگتا ہے جیسے کوئی موتی جھلملا رہی ہو۔
شعر
خواہاں تھے (تخلِ گلشنِ زہرا) جو آب کے
شبنم نے بھردئیے تھے کٹورے گلاب کے
حوالہ
شبنم نے بھردئیے تھے کٹورے گلاب کے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب میر انیس کے مرثیےصبح کا سماں سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
حضرت فاطمہ کے باغ۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شاعر اس ترکیب سے حضرت فاطمہ کی اولاد یعنی حضرت امام حسین رضہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
صحرا کی دعا
شعر
خبر کیا تھی الہی ایک دن ایسا بھی آئے گا
کہ تیرا ساقیِ (کوثر صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں تشریف لائے گا
حوالہ
کہ تیرا ساقیِ (کوثر صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں تشریف لائے گا
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب حفیظ جالندھری کی نظم صحرا کی دعا سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
ساقی کے معنی ہیں پلانے والا اور کوثر جنت کا ایک حوض ہے۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے پس منظر میں اس ترکیب سے مراد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حوضِ کوثر کے متعلق حدیث ہے کہ قیامت کہ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حوض میں سے اپنے دستِ مبارک سے خوش نصیبوں کو پانی پلائیں گے۔
شعر
میں سمجھا تھا کہ مقدر ہوچکی ہے دھوپ کی سختی
مری قسمت میں لکھی جاچکی ہے (سوختہ بختی)
حوالہ
مری قسمت میں لکھی جاچکی ہے (سوختہ بختی)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب حفیظ جالندھری کی نظم صحرا کی دعا سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
جلتی ہوئی قسمت
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے حوالے سے ریگستان کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ہمیشہ سورج کی تپش سے جلتا ہے اور جھلستا رہتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ تپش اور دھوپ اس کا مقدر بن چکی ہے۔
شعر
یہ (ستر اونٹ دو گھوڑے)یہاں سیراب ہوجاتے
مجاہد بھی وضو کرتے، نہاتے، غسل فرماتے
حوالہ
مجاہد بھی وضو کرتے، نہاتے، غسل فرماتے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب حفیظ جالندھری کی نظم صحرا کی دعا سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
جنگِ بدر میں مسلمانوں کی سواریوں کی تعداد۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
اس ترکیب میں جنگِ بدرکی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں مسلمانوں کے پاس سواریوں کی تعداد ستر اونٹ اور دوگھوڑے تھے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
جنگِ یرموک کا ایک واقعہ
شعر
صف بستہ تھے عرب کے جوانانِ تیغِ بند
تھی منتظر حنا کی عروسِ زمینِ شام
حوالہ
تھی منتظر حنا کی عروسِ زمینِ شام
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب علامہ اقبال کی نظم جنگِ یرموک کا ایک واقعہ سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
تلواریں باندھیں ہوئے نوجوان۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
نظم کے پس منظر میں یہ وہ منظر ہے جب عرب کے نوجوان اسلحے سے لیس قطاریں باندھے کھڑے تھے۔
شعر
اک نوجوان صورتِ سیماب مضطرب
آکر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام
حوالہ
آکر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب ”علامہ اقبال“ کی نظم ”جنگِ یرموک کا ایک واقعہ“ سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
بہت زیادہ بے چین۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
نظم کے حوالے سے اس نوجوان کی طرف اشارہ ہے جو انتہائی بے تابی اور بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت پانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
شعر
یہ ذوق و شوق دیکھ کر پرنم ہوئی وہ آنکھ
جس کی نگاہ تھی (صفتِ تیغِ بے نیام)
حوالہ
جس کی نگاہ تھی (صفتِ تیغِ بے نیام)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب علامہ اقبال کی نظم جنگِ یرموک کا ایک واقعہ سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
ننگی تلوایں
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
یہ ترکیب مسلمان فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ کے لے استعمال کی ہے۔ ان کی بہادری بہت مشہور تھی اور بڑے بڑے سورما ان سے آنکھ نہ ملا سکتے تھے۔
شعر
صف بستہ تھے عرب کے جوانانِ تیغِ بند'
تھی منتظر حنا کی (عروسِ زمینِ شام)
حوالہ
تھی منتظر حنا کی (عروسِ زمینِ شام)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب علامہ اقبال کی نظم جنگِ یرموک کا ایک واقعہ سے لی گئی ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
سرزمینِ شام کی دلہن۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
اس میں مفہوم یہ بتایا جاتا ہے کہ جس طرح دلہن کو سجانے کے لئے لال جوڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح سرزمینِ شام پر مسلمانوں کے خون کی سرخی سے یعنی جہاد کی برکت سے اسے دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
ہنس نامہ
شعر
دن رات اسے خوش رکھیں (نت سکھ) اسے دیویں
حوالہ
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب نظیر اکبر آبادی کی نظمہنس نامہ سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
یہ دنوں ہندی زبان کے لفظ ہیں جس کے لفظی معنی ہیں ہمیشہ آرام پہنچنا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
نظم کے حوالے سے پرندوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہنس کو ہمیشہ آرام اور سکون پہنچائیں گے۔
شعر
سب ہوکے خوش اس کی (مئے الفت لگے پینے)
حوالہ
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب نظیر اکبر آبادی کی نظمہنس نامہ سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
محبت کی شراب پینے لگے۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
نظم کے حوالے سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنگل کے سارے پرندے ہنس کی محبت میں بری طرح گرفتا ر ہوگئے۔
شعر
جب حرفِ جدائی کا پرندوں نے (کیا گوش)
حوالہ
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب نظیر اکبر آبادی کی نظمہنس نامہ سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
گوش فارسی زبان میں کان کو کہتے ہیں۔ گوش کرنا کے معنی ہیں سننا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
یہاں پر مراد یہ ہے کہ جب جنگل کے پرندوں نے اپنے دوست ہنس کی جدائی کی خبر سنی تو ان کے ہوش اڑ گئے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - جگر مرادآبادی
شعر
بلندی چاہئے انسان کی فطرت میں پوشیدہ
کوئی ہو بھیس لیکن (شانِ سلطانی) نہیں جاتی
حوالہ
کوئی ہو بھیس لیکن (شانِ سلطانی) نہیں جاتی
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب جگر مرادآبادی کی غزل سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
بادشاہت کی شان و شوکت۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے پس منظر میں شاہانہ مزاج اور عادتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ تبدیلی نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو بڑی مشکل سے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - حسرت موہانی
شعر
حسرت یہ کس کے حسنِ محبت کا ہے کمال
کہتے ہیں جو شاعرِ رنگین نوا مجھے
حوالہ
کہتے ہیں جو شاعرِ رنگین نوا مجھے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب حسرت موہانی کی غزل سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
یہ ترکیب شاعر نے خود اپنے لئے استعمال کی ہے۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شاعری کی اصطلاح میں اس خوبی کو صنعتِ حسنِ تعلی کہا جاتا ہے جس میں شاعر خود اپنی تعریف کرتا ہے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - خواجہ میردرد
شعر
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
(چشم نم) آئے تھے دامن تر چلے
حوالہ
(چشم نم) آئے تھے دامن تر چلے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب خواجہ میر درد کی غزل سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
گیلی آنکھ یا روئی ہوئی آنکھ۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے حوالے سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص اپنی آنکھوں میں آنسو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اور دنیا میں آتے ہی اس کی رنگینیوں میں گم ہوجاتا ہے۔
شعر
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے (دامن تر) چلے
حوالہ
چشم نم آئے تھے (دامن تر) چلے
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب خواجہ میر درد کی غزل سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
دامن بھیگ جانا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے حوالے سے اس کا مطلب ہے گناہ گار۔ یعنی جب انسان دنیا سے جاتا ہے تو گناہوں کا ایک بوجھ ساتھ لے کر جاتا ہے۔
__________________
__________________
Re: Reference and Meaning of Poems اشعار کے حوالے اور معنے
--------------------------------------------------------------------------------
نعت- مولانا ظفر علی خان
شعر
دیکھی نہیں اگر کسی نے شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
دیکھے کہ جبرئیل عہ ہے (دربانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)
حوالہ
دیکھے کہ جبرئیل عہ ہے (دربانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب مولانا ظفر علی خان کینعت سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر چوکیداری کرنے والا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے پس منظر میں اس ترکیب کے معنی ہیں۔ حضرت جبرئیل عہ جنہیں شاعر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر چوکیداری کرنے والا کہتا ہے۔
شعر
اسلام کا زمانے میں (سکہ بٹھادیا)
اپنی مثال آپ ہیں یارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
حوالہ
اپنی مثال آپ ہیں یارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب مولانا ظفر علی خان کی نعت سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
حکومت قائم کرنا۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے حوالے سے صحابہ کرام رضہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جنہوں نے اپنی کوششوں سے سارے عالم میں اسلام کا بول بالا کردیا۔
شعر
اسلام کا زمانے میں سکہ بٹھادیا
اپنی مثال آپ ہیں (یارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)
حوالہ
اپنی مثال آپ ہیں (یارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب مولانا ظفر علی خان کی نعت سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
شعر کے پس منظر میں اس ترکیب سے مراد ہے صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں دنیا کی بے مثال ہستیاں قرار دیا گیا ہے۔
شعر
لائے نہ کیوں یہ نغمہ ملائک کو وجد میں
گاتا جھ کس لو (بلبلِ بستانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)
حوالہ
گاتا جھ کس لو (بلبلِ بستانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)
حوالہ
پیشِ نظر ترکیب ”مولانا ظفر علی خان“ کی ’ نعت “ سے ماخوذ ہے۔
لغوی معنی
لغوی معنی
حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی باغ کا بلبل۔
اصطلاحی معنی
اصطلاحی معنی
اس ترکیب میں شاعر نے خود اپنے آپ کو منسوب کیا ہے۔ جس طرح بلبل پھولوں کی عاشق ہوتی ہے اسی طرح شاعر بھی حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں نغمہ سرا ہے۔
__________________
__________________
Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
فہرست مضامین
* حمد - مولوی محمد اسمعیل میرٹھی
* نعت - مولانا ظفر علی خان
* واءی - شاہ عبد اللطیف بھٹاءی
* غزل - میر تقی میر
* غزل - خواجہ میر درد
* غزل - مرزا اسد اللہ خان غالب
* غزل - بہادر شاہ ظفر
* غزل - مولانا حسرت موہانی
* غزل - جگر مراد آبادی
* غزل - ناصر کاظمی
________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - ناصرکاظمی
ناصر کاظمی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے زندگی کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا ہے۔ آپ نے سنی سنائی باتوں کو لفظوں کی آغوش میں لیکر اشعار کا جامہ پہنانے سے احتراز کیا ہے۔ آپ نے زندگی کا بذاتِ خود تجربہ کیا اور جو کچھ محسوس کیا اسے غزل کے مخصوص انداز اور لب و لہجہ میں جدید رنگ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ تشریح طلب شعر ناصر کاظمی کی غزل سے اقتباس کیا گیا ہے۔
شعر۱
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
تشریح
مشاہدہ تو جیسے ناصر کی فطرت کا حصہ ہے۔ اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر ناصر زندگی کے نشیب و فراز کی وجہ سے پیش آنے والے حالات کی تجزیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگوں کو جب آسائشیں اور سکون میسر ہو تو بڑے اطمینان سے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن جیسے ہی زندگی حالات کے طوفان کی زد میں آتی ہے تو ان کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور سب کچھ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ سکون و اطمینان کی جگہ ایک غمزدہ سی ویرانی اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے۔
شعر۲=
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
تشریح
عشق کے مراحل سخت کٹھن ہیں اور یہ مراحل عاشق کو خود ہی طے کرنے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اسی طرح حصولِ مقصد کے بعد وہ اپنا حق جتاسکتے ہیں۔ اسی لئے اپنے پرائے سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں عاشق کو محبوب کی یاد کے علاوہ کچھ یاد نہیں ہوتا۔ دل میں ایک ویرانی سی چھاجاتی ہے۔ اور ایسی ہی تنہائی میں عاشق کو اپنی سانس ہی محبوب کی صدا کی طرح سنائی دیتی ہے اور بے اختیارر عا شق کی زبان پر آجاتا ہے کہ
کبھی ایسا بھی ہو آباد یہ ویرانہ بنے
غم کدہ میرا کہیں تیرا جلوہ خانہ بنے
شعر۳
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویراں سرا ہوتی ہے
تشریح
عشق کا پہلا مرحلہ خواہش، دوسرا تڑپ اور تیسرا حسرت و یاس ہے۔ یہی عناصر ہیں جن سے مل کر عشق کا مزا دوبالا ہوجاتا ہے۔ ناصر اپنے اس شعر میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب ان کا محبوب ان کے پاس تھا تو ان کا دل خوشیوں کا دولت کدہ تھا۔ لیکن جب ان کا محبوب ان سے جدا ہوا تو اس کی رفاقت میں گویا ان کا دل غمکدہ بن گیا۔ اور اس طرح ویران ہوگیا جیسے کوئی سرائے مسافروں سے خالی ہونے کے بعد سنسان اور ویران نظرآتی ہے۔
شعر۴
منہ اندھیرے کبھی اٹھ کر دیکھو
کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے!
تشریح
شاعری حسن کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ حسن سے کر کوئی متاثر ہوتا ہے۔ شاعر اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے حسن کے حقیقی روپ کو دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور فطرت کی رعنائیوں کو ہم پر آشکار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کی دوڑ میں اتنے مصروف ہیں کہ ہمیں قدرتی مناظر کو دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کا وقت بھی میسر نہیں ہے۔ آج کل ہماری زندگی میں اتنی لذت نہیں ہے اس کی اصل وجہ قدرتی اشیاءکا فقدان ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ پو پھٹتے وقت اٹھو اور قدرت کے نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھو تمہیں فرحت و راحت کی وہ حقیقی لذت حاصل ہوگی جس کے لئے تم دن رات تگ و دود کرتے ہو۔
شعر۵
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل، گل سے جدا ہوتی ہے
تشریح
خوشبو اور رنگ، پھول کے پھول ہونے کی چغلی کھاتے ہیں۔ بہار کا موسم پھولوں کے لئے شادابی کا موسم ہے۔ جس پر پھول اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ لیکن خزاں پھول کی اس رنگینی کو چھین لیتی ہے اور پھول کو تبا و برباد کردیتی ہیں۔ اگر یہ عمل خزاح کی آمد سے قبل ہی ظہور پذیر ہوجائے تو کسی بڑے سانحے سے کم نہ ہوگا۔ شاعر کہتے ہیں کہ بالکل اسی طرح اگر کسی کی جدائی میں اس کے خوشی کے جذبات و احساسات کو غم و اندوہ اور رنج و الم کی کیفیات اپنے حلقے میں لے لیں تو پھر اس کی شخصیت کا نکھار ختم ہوجائے گا۔ اور وہ ایک مرجھائے ہوئے پھول کی مانند بن جائے گا۔ اس سے بڑا حادثہ اورکیا ہوسکتا ہے۔
شعر۶=
اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے
تشریح
ناصر کاظمی ترقی پسند شاعر تھے۔ اس لئے ایک خوش آئندہ مستقبل سے امید وابستہ کئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے دور کو ظلم و ستم، ناکامیوں اور محرومیوںکا دور گردانتے ہیں۔ ناصر کہتے ہیں کہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔جب حالات کروٹ بدلتے ہیں تو ایک نیا دور جنم لیتا ہے اور اس طرح ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈلتی ہے۔ یہ نئی تہذیب جب رنگ پکڑتی ہے تو پرانی تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ ناصر کاظمی یہ کہتے ہیں کہ اب یہ دور بھی ختم ہونے والا ہے اور ایک نیا دور جنم لے رہا ہے جس میں راحت و سکون اور عنایات و نوازشات ہونگی۔
شعر۷
جب کوئی غم نہیں ہوتا ناصر
بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے
تشریح
عاشق کو غموں سے سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور جب عاشق غم جھیلنے کا عادی ہوجائے تو بغیر کسی غم کے زندگی میں ایک بے چینی سی چھاجاتی ہے۔ چنانچہ شاعر یہی کہتے ہیں کہ جب ہمیں اپنے محبوب یا پھر زمانے کی طرف سے کوئی غم نہیں ملتا تو طبیعت منحمل سی ہوجاتی ہے۔ اور زندگی لطف و سرور سے عادی ہوجاتی ہے۔ اسی مضمون کو منیر جعفری کو اپنے شعر مےں کچھ اس طرح رقم کرتے ہیں کہ
زندگی اپنی غم سے مرتب
غم نہ ہوتا تو ہم بھی نہ ہوتے
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
غزل -جگر مراد آبادی
حوالہ
جگر کی شاعری میں حسن و عشق کی کیفیات کا والہانہ انداز پایا جاتا ہے۔ وہ حسن و عشق کی گہرائیوں میں اتر کر مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کا اندازِ بیان نہایت لطیف اور ہلکا پھلکا ہے۔ ان کے کلام میں کیف اور وارفتگی ہے اسی لئے ان کے کلام میں انفرادیت کا رنگ نمایاں ہے۔ زیرِ تشریح شعر جگر کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
شعر۱
نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی
تشریح
اللہ تعالی نے حضرتِ انسان کو کیا خوب عقل سے نوازا کہ انسان نے اشرف المخلوقات کا درجہ پایا۔ انسانی عقل علم و شعور کے ایسے درجہ پر فائز ہے کہ اس کی حاصل کردہ معلومات سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہی انسان جس پر آج کائنات نت نئے رازوں کا انکشاف ہورہا ہی وہ اپنی ہی ذات کے اصل مقصد سے ناآشنا ہے اور اپنی ہی ذات کی گہرائیوں میں نہ پہنچ سکا اور یہ کہ خود کو ہی نہ پہچان سکا جب انسان خود کو ہی نہ پہچان سکا تو وہ خدا کو کس طرح پہچان سکتا ہے۔
شعر۳
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی
تشریح
جگر کیا خوب حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ آجکل واعظوںکا یہ حال ہے کہ لوگوں کے دلوں میں جوش و جذبات کے انگارے تک نہیں بڑھاسکتے کجا یہ کہ آگ بھڑکادیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ قول و فعل میں تضاد ہو تو واعظ اپنا اثر کھودیتے ہیں۔ بات سچی ہو اور صاحبِ عمل شخص کے منہ سے نکلے تو پھر اس میں ایک ایسی قوتِ کشش ہوتی ہے کہ انسان نہ چاہنے کے باوجود اسے تسلیم کرنے اور عمل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
شعر۳
بلندی چاہئے انسان کی فطرت میں پوشیدہ
کوئی ہو بھیس لیکن شانِ سلطانی نہیں جاتی
تشریح
انسان دنیا میں اللہ تعالی کا نائب مقرر ہوا ہے اسی لئے انسان میں وہ تمام خصوصیات جوکہ سلطانی کے درجہ پر فائز رہنے والے کے لئے ضروری ہیں۔ پس انسان کو چاہئے کہ خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہر حال میں خدا کی طرف سے عطا کئے گئے درجات کا خیال رکھے اور اس کا شکر ادا کرے۔ مصائب کے ہجوم سے بے پرواہ ہوکر ایک شان کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
شعر۴
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ نہیں ہوئی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
تشریح
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
اسی بات کو ذرا مختلف انداز میں جگر بھی بیان کرتے ہیں۔ جگر کہتے ہیں کہ محبوب کی یاد ہمارے دل میں کچھ اس طرح گھر کرچکی ہے کہ ہر آہٹ اس کے آنے کی نوید سنائی ہے اور ہر وہ آواز جو کان میں داخل ہوتی ہے اسی کی آواز کا عکس لئے ہوئے ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہر آہٹ اور ہر لب و لہجہ میرے دل کی پیداوار ہوتا ہے جو محبوب سے ہماری بے پایاں محبت کا عملی ثبوت ہے لیکن ہماری محبوب ہے کہ ہم سے بے رخی اور بے مروتی سے پیش آئے ہوئے اسے ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہوتا۔ ہم دل کے آئینے میں محبوب سے ملتے ہیں۔ لیکن حال کے آئینے میں اس کی تصویر کا نام و نشان بھی نہیں ہے
دل کے آئینے میں تصویر یار کی
ذرا گردن جھکائی اور دیکھ لی
شعر۵
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
تشریح
شمع نے آگ رکھی سر پہ قسم کھانے کو
بخدا! میں نے جلایا نہیں پروانے کو
یہ سچ ہے کہ راہِ عشق میں حیات و موت کے راستوں کا تعین خود عاشق ہی کرتا ہے۔ اسی لئے پروانے بھی اپنے لئے مشکل و کٹھن راستہ اختیار کرتے ہیں جو کہ عشق کو حیاتِ دوام بخشتا ہے۔ شاعر ایک طرف تو پروانے کے اس عمل کو نادانی و ناسمجھی سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے اسی فعل کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی مثال دیتے ہیں کہ پروانے، شمع کے حضور ذوق و شوق کے ساتھ بڑھتے ہیں اور اپنی محبت کا یقین دیتے ہوئے اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں۔
اتنا کچھ ہوجانے کے باوجودبھی پروانے کے لب وا نہیں ہوئے کہ
سزا ملی ہے رفاقت کی دوستوں! دیکھو
بہت حسین ہی منظر میرے تڑپنے کا
یا
حاکم سے بڑھ ک کیا کوئی سودا کرے گا حسن کا
ہم بڑھے اتنے کہ اپنی نقد جاں تک آگئے
شعر۶
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
تشریح
جسے عشق ہوجائے آنسو گویا اس کا نصیب بن جاتے ہیں اور ایک سچا عاشق ان آنسووں کو ہی اپنا سرمایہ حیات سمجھتا ہے۔ لیکن عشق میں ایک ایسا صبر آزما اور جان لیوا مرحلہ بھی آتا ہے کہ عاشق اپنے ان آنسووں سے محروم ہوجاتا ہے۔ آنسووں سے محروم ہوجاتا ہے آنسووں کی رانی کچھ اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ ان کا ذخیرہ ختم ہوجاتا ہے نگاہوں کے بے تابی کم نہیں ہوتی لیکن رونے کو آنسو بھی نہیں۔ سرزمینِ دل میں طغیانی کا سماں ہے لیکن سیلاب کے لئے
آنسووں کا دریا نہیں
آنکھ میں آنسو باقی نہیں
وہ سمجھتے ہیں، محبت تمام ہوئی
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - مولانا حسرت موہانی
حوالہ
حسرت موہانی خالص غزل کے شاعر ہیں ۔ ان کی غزل میں نفسیاتِ عشق کا حقیقت پسندانہ مطالعہ اور فطرتِ انسانی کا گہرا مشاہدہ ملتا ہے۔ ان کی زبان میں حسن اور رنگینی ہے۔ اور لہجہ میں رعنائی اور شگفتگی ہے۔
شعر۱
ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کرسکا نہ ہجومِ بلا مجھے
تشریح
یہ شعر حسرت کی طرزِ فکر اور اندازِ بیان کا آئینہ دار ہے۔ اس لئے حسرت کی حوصلہ مندی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ حسرت کہتے ہیں کہ ہر چند کہ میں آلام و مصائب کے ہجوم میں گھرا رہا لیکن چونکہ مجھے اپنے رب کریم کی رحمت کا ہر لمحہ آسرارہا۔ اس لئے میں مایوسی کا شکار نہ ہوا۔ مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ خدائے کریم میری مشکلات، پریشانیاں اور الجھنوں کو ضرور دور کردے گا اور میرے حالات ضرور سازگار ہوجائیں گے۔
حسرت نے یہاں ایسی حقیقت افروز بات کہی ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خدا ہی کا بھروسہ ہے کہ انسان کو حوصلہ شکن حالات میں بھی مایوس ہونے نہیں دیتا۔ اور طوفانِ حوادث کی زد میں امید کا دیا بجھنے نہیں دیتا۔
شعر۲
ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا
تشریح
حسرت اپنے مخصوص طرز میں کہتے ہیں کہ محبوب کا عشق میری رگوں میں ایسا سرائیت کر گیا ہے۔ کہ ہر ساز اور ہر نغمے سے محبوب کی آواز کا اظہار ہوتا ہے۔ محبوب کی تمنا میرے سارے وجود پر چھاگئی ہے۔ میں اس کی محبت میں ایسا کھوچکا ہوں کہ ہر نغمہ مجھے محبوب کی یاد دلاتا ہے اور ہرساز سے جو آواز نکلتی ہے وہ مجھے محبوب کی آواز معلوم ہوتی ہے۔
حسرت نے یہاں والہانہ عشق کی کیفیت کو بڑے دلکش اور م�¶ثر انداز میں پیش کیا ہے۔ درد کا شعر بے ساختہ یاد آگیا کہ
تمنا ہے تیری اگر ہے تمنا
تیری آرزو ہے اگر آرزو ہے
شعر۳
ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے
تشریح
بقول حسرت
مرض یاد کے خلاف نہ ہو
لوگ میرے لئے دعا نہ کریں
یہی بات حسرت تشریح طلب شعر میں اور خوبصورت بنا کر پیش کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھ کو محبوب کی خوشی اور رضا ہر حال میں مقدم ہے۔ میری ہر بات اور ہر کام کا مقصد یہی ہے کہ محبوب کی خوشی مجھے حاصل رہے۔ مجھے اپنے جذبات کی تسکین اور اپنے ارمان و آرزو کی تکمیل سے کوئی غرض نہیں۔ والہانہ عشق کی حسرت نے کیا خوب تصویر کشی کی ہے
نہ ملیں گے اگر کہیے گا تو
ہم کو خاطر تیری مقدم ہے
شعر۴
رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روزوشب
مستی کا پڑگیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے
تشریح
محبوب کا تصور اتنا خوش کن ہوتا ہے کہ بے اختیار سرور چھانے لگتا ہے۔ اور مستی و سرشاری عشق کا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ محبوب کو اپنے خیالات و تصورات سے حاصل ہوتاہے۔ حسرت کے اس شعر کا تعلق عشقِ حقیقی سے ہے۔ وہ اس حقیقت کو بڑی خوبی سے بیان کررہے ہیں کہ جب میں اللہ تعالی کے خیال میں ڈوبا رہتا ہوں تو مجھے اس قدر سکون اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے کہ میرا دل ہر وقت اسی کی طرف لگارہتا ہے
جب اس کی یاد آتی ہے ہوش مجھے نہیں ہوتا
خواب دیکھتا رہتا ہے پر نیند میں نہیں ہوتا
شعر۵
بے وجہ تم جو بیٹھ رہے، ہوکے بے خبر
آخر یہ کس خطا کی ملی ہے سزا مجھے
تشریح
حسرت کے دلپسند انداز میں بڑا پیار شعر ہے۔ زبان کی صفائی اور روانی نے شعر میں بلا کی دلکشی پیدا کردی ہے۔
حسرت کے محبوب کی ادائیں انوکھی اور نرالی ہیں وہ ان سے بے سبب روٹھ کر بے تعلق ہوگیا ہے۔اس کو یہ لاتعلقیحسرت کے لئے روحانی کرب و اذیت کا سبب بن گئی ہے ایک عاشق کو محبوب کو بے تعلق کسی حال میں گوارا نہیں ۔ غالب بھی
محبوب سے ملتجی ہیں کہ
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں تو عداوت ہی سہی
حسرت نے اگر چہ غالب سے کم تر بات کہی لیکن طرزِ ادا اپنی جگہ خوب ہے۔ وہ محبوب کی بے تعلقی پر بے قرار ہوکر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کونسی خطا ہے جس کی یہ سزا دی جارہی ہے۔ کم از کم میرا جرم ہی بتادو جس کی تم نے مجھے سزا دی ہے کہ سے ترکِ تعلق کر بیٹھے۔
شعر۶
میں ان سے عفو جرم کی درخواست کیا کروں
معلوم بھی تو ہو کوئی اپنی خطا مجھے
تشریح
یہ حسرت کاایک منفرد شعر ہے اور ان کے مخصوص طرز و فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ حسرت کا محبوب ان سے بے وجہ ناراض ہوگیا ہے۔ حسرت کہتے ہیں کہ وہ اپنے محوب سے اپنے ہر جرم کی معافی بڑی عاجزی و انکساری سے مانگنے کو تیار ہوں مگر معلوم تو ہو کہ آخر اپنی کس خطا کے لئے معافی کی درخواست کروں؟ محبوب کا یوں بے سبب اپنے عاشق سے روٹھ جانا ایک ایسی ادائے ستم ہے جو عاشق کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیتی ہے اس بات کا اظہار یہاں جس خوبصورت سے کیا ہے وہ حسرت ہی کا خلاصہ ہے اور جسکی تعریف کے لئے لفظوں کا دامن تنگ ہے۔
شعر۷
حسرت یہ کس کے حسنِ محبت کا ہے کمال
کہتے ہیں سب جو شاعرِ رنگیں نوا مجھے
تشریح
اس شعر میں حسرت کہتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب کی خاطر ایسی ایسی منفرد غزلیں کہی ہیں کہ میرا کلام تتلی کی طرح سجا سنورا سا نظرآتا ہے۔ اور اس میں ایسی دلکشی ہے کہ سننے والے بے اختیار مجھے داد دینے لگتے ہیں۔ میری شاعری کا یہ مقام میرے محبوب کے حسن اور اس کی محبت کا کرشمہ ہے۔ مجھے اللہ سے اتنا لگا�¶ ہے کہ میری ہر غزل ہر شعر اسی کے حسن کا آئینہ دار ہے۔ اسی لئے لوگ میرے اشعار کی دل کھول کر تعریف کرتے ہیں۔
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - بہادر شاہ ظفر
حوالہ
بہادر شاہ ظفر ایسے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ظفر کی شاعری رنج و الم، حسرت و یاس کی کیفیات سے اور المیہ جذبات سی بھری پڑی ہے۔ ظفر بنیادی طور پر درویشانہ فطرت کے حامل تھے۔ پیش نظر شعر بہادر شاہ طفر کی غزل سے لیا گیا ہے۔
شعر۱
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں
کہ قراروشکیب ذرا نہ رہا
غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا
کوئی اور بلا سی رہا نہ رہا
تشریح
عاشق کے لئے زندگی دراصل محبوب کے فراق میں تڑپنی ہی کا نام ہے ورنہ اس کے نزدیک زندگی کی کوئی حقیقت و اہمیت نہیں۔ ظفر کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا قطعاً کوئی رنج نہیں کہ ہمیں عشق کی وجہ سے سکون نصیب نہ ہوسکا۔ ہمارا کوئی بھی غمخوار نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ تو ہونا ہی تھا لیکن اب بھی ایک شے میرے ساتھ ہے اور وہ ہے معشوق کی بے راہ روی کی وجہ سے ملنے والا زخم۔ کوئی اور بھلے سے ہمارا غمگسار نہ ہو ہمیں تو عشق کی اصل منزل یعنی غمِ عشق مل چکا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہے۔
شعر۲
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پہ نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
تشریح
ظفر کا یہ شعربہت زیادہ نصیحت آموز ہے۔ اسی سی متعلق کیا خوب شعر ہے
خود اپنی آنکھ کے شہتیر کی خبر رکھیں
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
بالکل اسی شعر کی طرح ظفر انسانی فطرت کا بڑی خوبی سے گھیراو کرتے ہیں اور اس خامی سے بچنے کے لئےاپنے گریبان میں جھانکنے کی تلقین کررہے ہےں۔ ظفر کہتے ہیں کہ انسان اپنے عیوب و محاسن سے بے پرواہ ہوکر دوسروں کی عیب جوئی میں سرگرداں رہتا ہے دوسروں کی برائیوں پر تنقید کرنا تو گویا ہم نے اپنا مقصدِ حیات بنالیا ہے۔ دوسروں کے عیوب تلاش کرتے کرتے جب اپنے نقائص پر ہماری نظر پڑی تو ہمیں اپنی ذات سب سے زیادہ گناہوں میں ملوث نظر آئی جب ہم پر حقیقت کا انکشاف ہوا تو ہمیں کوئی بھی شخص اپنے سے زیادہ گناہ گار نظر نہیں آیا۔
شعر۳
ہمیں ساغرِ بادہ کے دینے میں
اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب
کہ یہ عہدِ نشاط یہ دورِ طرب
نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا
تشریح
زندگی ایسا چکر ہے جس میں خوشی اور غم دونوں کا برابر کا حصہ ہے۔ راحت، آلام و مصائب اور سکون و اضطراب ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ اگر ہماری زندگی میں غم کا دخل نہ ہو تو خوشی میں وہ بات نہ ہوگی جو کہ اب ہے یعنی نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
اس لئے ظفر کہتے ہیں کہ اے ساقی! ابھی میں دنیا کے مصائب سے بے نیاز ہوں۔ اس بحرِ تلاطم سے میرا چند روزہ سکون بھی نہ دیکھا جائے گا۔ اسلئے میں ان پرلطف لمحات سے محظوظ ہونا چاہتا ہوں۔ پس اے ساقی تو مجھے مئے کے جام پلائے جا اور دیر نہ کر کہ جب انقلابِ زمانہ کروٹ لے گا تو پینے پلانے اور خوشیاں منانے کے دن جاچکے ہونگے چند ہی دن کی ہے حیات پیار کے ساتھ کر بسر
شعر۴
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا
ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی
جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
تشریح
اس شعر میں ظفر اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان خواہ عقل و ذبانت میں کیسا ہی کیوں نہ ہووہ اس وقت تک اشرف المخلوقات کہلانے کا صحیح حقدار نہےں جب تک کہ اخلاقیات کے معیار پر پورا نہ اترے۔
انسان نشاط و انسادا کے لمحات میں خدا کو بھول جاتا ہے اور اس پر یہ کہ اگر صاحب اختیار ہو تو بھولے سے بھی یادِ خدا اس کے پاس سے نہیں پھٹکتی۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ انسان غصہ کی حالت میں اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اور ایسی نازیبا گفتگو اور حرکات انجام دیتا ہے کہ کوئی باشعور آدمی ہوش میں رہ کر اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اسی لئے غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ کیا حرام فعل کو انجام دینے والا ایک صحیح اور سچا مسلمان ہوسکتا ہے۔ یہی ظفر اپنے اس شعر میں بتانا چاہتے ہیں۔
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - مرزا اسد اﷲ خان غالب
حوالہ
قدرت نے غالب کو فکر اور احساس کا جو خزینہ عطا کیا تھا اسے انہوں نے غزل کے عطردان میں بند کرکے گنجینہ مض کا طلسم بنادیا۔ بلند· خیال، تازگ· فکر، ندرتِ بیان، فطری شوخی، ظرافت اور حسنِ بیان غالب کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
شعر۱
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
تشریح
غالب کا یہ سادہ سا شعر اپنے اندر معنویت اور فکر انگیزی لئے ہوئے ہیں۔ غالب اس شعر میں اپنے دل سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے دل! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ محبوب کے جوروستم کے باوجود تو اس کی طرفداری کررہا ہے تو اپنی نادانی کی وجہ سے مریضِ عشق بن رہا ہے۔ اگر تیرا یہی حال رہا تو پھر تجھ جیسے بیمارِ عشق کا علاج میں کیسے کروں گا۔ اس لئے میری تجھ سے گزارش ہے کہ معشوق کی طرف سے منہ پھیر لے ورنہ میں تباہ و برباد ہوجاوں گا
تقاضہ ہے یہی دل کا وہیں چلئے وہیں چلئے
وہ محفل ہائے جس محفل میں دنیا لٹ گئی اپنی
شعر۲
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
تشریح
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
تضادِ عشق میں ایسا مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رہ رہا تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کروگے
عشق، عاشق اور محبوب کے باہمی تعلقات و رضامندی سے ہی نام پیدا کرتا ہے۔ عشق میں تضاد عاشق کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ غالب بھی یہی بات کہتے ہیں کہ ہمارے اور محبوب کے درمیان قطعی متضاد کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہم محبوب کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں اور اس کی خاطر ہر مشکل کو برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن وہ ہے کہ ہمیں خاطر ہی میں نہیں لاتا۔
شعر۳
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
تشریح
غالب اپنے محبوب سے شکایت کرتے ہیں کہ تم تو اپنی تمام تر پریشانیاں بغیر کسی رعایت کی سب سے کہہ دیتے ہو اور غیروں سے ان کا حال احوال دریافت کرتے ہو۔ ہمارے پاس بھی شکوے شکایتوں کے انبار لگے ہوتے ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے کئی دفاتر درکار ہیں لیکن ہمارا محبوب ہے کہ ہم سے ہماری احوال پرستی ہی نہیں کرتا جو ہم اسے اپنا دکھ بتائیں
فرصت کسے تھی جو میرے حالات پوچھتے
ہر شخص اپنے بارے میں کچھ سوچتا ملا
شعر۴
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
تشریح
عشق و محبت تسلیم و رضا کا نام ہے لیکن غالب کے محبوب کی فطرت میں بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ عشق کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہے۔ اس لئے اس سے محبت و وفا کی امید رکھنا بے کار ہے۔ ہمارے محبوب کی ذات ظلم و ستم، جفا اور بے وفائی کا دوسرا نام ہے لیکن ہم ایک سچے عاشق کی طرح ہیں کہ محبوب کی بے وفائی کے باوجود اسے ٹوٹ کر چاہتے ہیں
ہم ان سے حالِ دل رو رو کے کہتے ہیں
وہ ہنس ہنس کے ہم کو دیوانہ کہتے ہیں
شعر۵
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
تشریح
محبت کا پودا قربانی کی کرنوں سے پروان چڑھتا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ میں محبت میں خود کو اپنی محبوب پر قربان کردونگا۔ لیکن یہ دعا ہرگز نہ کروں گا کہ خدا میرے محبوب کو میری طرف مائل کردے بلکہ اس کی ہر خوشی پر سر تسلیم خم کرونگا۔ میں ایک سچا عاشق ہوں اور ایک سچا عاشق کبھی مرضِ یار کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا۔ اسی لئے میں بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی دعا نہیں کرونگا لیکن اسے تمام عمر چاہتا رہونگا۔
شعر۶
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
تشریح
ہماری شاعری کی روایت کے مطابق غالب خود کو ایک مثال بناکر پیش کر رہے ہیں۔ غالب اپنے محبوب سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تو دستورِ عشق کے مطابق ہم پر التفات نہیں کرتا تو نہ سہی۔ لیکن میں تجھ سے ایک فقیر کی طرح سوال کرتا ہوں کہ میرا دامن محبت کی موتیوں سے بھردے مجھے خالی ہاتھ نہ بھیج۔ زمانے کی روایات کے مطابق میری جھولی میں تھوڑی سی خوشیاں ہی ڈال دے اللہ تجھے اس کا اجر دے گا۔
شعر۷
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
تشریح
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ دنیا جو بھی چیز دے اسے لے لو کیونکہ دنیا والے جع کچھ نفرت یا محبت دیتے ہیں اس میں کچھ بھی جمع پونجی خرچ نہیں کرنی پڑتی۔ اس لئے اے غالب! جو کچھ تمہارے ہاتھ لگے اسے مت ٹھکراو۔ یہی بات وہ اپنے معشوق کو بھے سمجھادینا چاہتے ہیں کہ میں تمہاری نظر میں کچھ بھی نہیں ہوں لیکن مجھے حاصل کرنے کے لئے تمہیںکچھ بھی محنت نہیں کرنی پڑی اس لئے مجھے قبول کرلو۔
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
غزل - خواجہ میر درد
حوال
خواجہ میر درد اردو کے عظیم شاعر ہیں۔ تصوف پر ان سے بہتر کسی نے نہیں کہا۔ تصوف خان کی زندگی کی بڑی حقیقت بلکہ اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کے کلام میں چاند کی سی پاکیزگی ، عظمتِ خیال اور جلوہ حق کی حکمرانی ہے اور زباں وبیاں کی سادگی اور دلکشی گویا سونے پہ سہاگہ ہے۔
شعر۱
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کرچلے
تشریح
یہ شعر درد کے رنگ اور طرز کی عکاسی کرتا ہے۔ درد کہتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں آکر وہ وعہدوپیماں بھول گئے جو ہم نے اللہ سے روزِ اول کئے تھے۔ یعنی یہ کہ ہم اس کی ہدایت اور احکام کے مطابق زندگی بسر کریں گے اور اپنی پاکیزہ روح کی امانت کو دنیا کی آرائشوں سے آلودہ نہیں کریں گے اس کے برعکس ہم دنیا کی رنگینیوں میں کھوگئے اور خطاوں کے کتنے ہی الزامات اور تہمتیں اپنے ساتھ لے کر رخصت ہوئے۔
دوسرے مصرعے میں طنزیہ لہجے نے جان پیدا کردی ہے۔ کہنا چاہتے کہ ہم دنیا میں اس لئے ہرگز نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہم گناہوں سے اپنی روح کو داغ دار کرلیں۔
شعر۲
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
تشریح
درد نے اس شعر میں زندگی کو طوفان سی تشبیہہ دیتے ہوئے زندگی کی ایک بڑی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ کوئی زندگی ہے جس میں نہ کوئی آرام و سکون ہے نہ ہماری خوشی کو دخل ہے ایک پتوار نا�¶ ہے جو موجِ حادثہ میں بہتی جارہی ہے۔ جس طرح طوفان پر انسان کا کوئی بس نہیں چلتا اسی طرح ہم خیالات کے دھارے پر بہتے رہے اور زندگی میں درد و غم کے طوفان اٹھتے رہے۔ ہم بے اختیار جینے پر مجبور ہیںاور اسی حالت میں ہمیں اپنے غم کا پیمانہ بھرنا پڑا۔ درد کا شعر ہے کہ
تھا عالم جبر کیا بتائیں
کس طرح سے زیست کرگئے ہم
شعر۳
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر ادھر چلے
تشریح
درد اپنے مخصوص طرزِ اسلوب میں اس شعر میں بے ثباتی کے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ درد کہتے ہیں کہ ہمیں ان پھولوں سے یعنی دنیا کی رنگینیوں سے کیا کام، اس سے ہمارا کیا واسطہ جبکہ ہمارا قیام اس دنیا میں اتنا مختصر، اتنا عارضی ہے کہ ابھی آئے اور ابھی چلے، ہماری حیاتِ مختصر ہمیں مہلت ہی کب دیتی ہے کہ ہم دنیا کی رنگینیوں اور دلچسپیوں سے جی بھر کر لطف اندوز ہوں اور ان سے جی لگائیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے عدم کی کوچ کی تیاری کریں۔
آتش کا ایک شعر ہے
عدم کی کوچ لازم ہے فکرِ ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیارِ یار میں ہے
شعر۴
دوستو! دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہ بس، ہم تو اپنے گھر چلے
تشریح
درد کا یہ شعر ان کے مخصوص طرزِ فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی قیام کے لئے آتا ہے اور اس سرائے فانی میں حیاتِ مختصر کے چند لمحات لئے ایک مہمان کی طرح اپنے اصل وطن یعنی خدا کے پاس لوٹ جاتا ہے۔ اس خیال سے درد نے یہ نقطہ پیدا کیا ہے کہ جب تک وہ اس سرائے فانی میں ہے طرح طرح کی پریشانیوں اور مشکلات سے دوچار رہے گا۔ یہ دنیا اسے راس نہ آئی اس لئے وہ دنیا والوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے دوستو! ہم نے یہاں کا تماشہ خو ب دیکھا، یہ دنیا ہمیں ذرا بھی نہ بھائی تو تم اس دنیا میں رہو تم تو اس سے منہ موڑ کر اپنے خالقِ
حقیقی کے پاس جارہے ہیں۔
شعر۵
شمر کی مانند ہم اس بزم میں
چشمِ نم آئے تھے دامن تر چلے
تشریح
درد نے اپنے شعر مےں ایک بڑی حقیقت افروز بات کہی ہے۔ کہتے ہیں کہ جسطرح محفل میں شمع جلتی ہے اور روتی ہے اور آخر شب جب اس کی لو دم توڑتی ہے تو اسکا دمن قطرہ ہائے اشک (موم کا اشعارہ) سے بھرجاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میںآئے تو اشک بار تھے اور اب جب کہ ہم اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں تو ہمارا دامن اشک ہائے ندامت (گناہوں) سے تر ہے جو ہم نے اپنی خطاوں، گناہوں اور لغزشوں پر بہائے۔ درد نے دامن تر سے بڑا خوبصورت کام لیا ہے۔ چشمِ نم کی رعایت سے ”دامن تر“ ہونے میں جو لفظی اور معنوی دلکشی پیدا ہوگئی ہے وہ تعریف سی بالاتر ہے۔
شعر۶
ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاو
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
تشریح
اس شعر میں درد کا مخصوص انداز فکر جلوہ گر ہے۔ درد اس دنیا کو میکدے سے تشبیہہ دےتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ساقی! س حجم خان عالم“ سے سارے میخوا یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جارہے ہیں۔ اس بزم جہان سے لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہورہے ہیں۔ اسی لئے جب تک ممکن ہو ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے دے یعنی جو وقت ہمیں میسر ہے اس کو غنیمت جانیں۔
درد ہی ایک جگہ فرماتے ہیں
موت سے کس کو دستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
شعر۷
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
تشریح
اس شعر میں درد خود کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی عقل قدرتِ خداوندی کے اس بھید کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کی ابتداءاور ان کا آغاز کیا ہے اور اسے انجام کی بھی خبر نہیں کہ یہ کاروانِ حیات جس کے ساتھ وہ خود بھی رواں ہے کہاں جارہا ہے۔ یہ دنیا کا قافلہ کہاں سے آرہا ہے اور اس کا آخری مقام کہاں ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے
مسافر ہیں سب لوگ چلتے رہیں گے
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
----------------------------------------------------------------
----------------
----------------
غزل - میر تقی میر
حوالہ
بقول میر
جائے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
میر نے اپنے بارے میں کچھ غلط بات نہیں کہی۔ کون سا ایسا صاحب علم ہے جو میر کو استادوں کا استاد تسلیم کرنے پر مجبور نہیں ہے۔ میر اس ہیرے کا نام ہے جو اردو شاعری کے تاج میں کوہِ نور کی طرح عرصے سے چمک رہا ہے۔ پھر بھی اس کی چمک دمک مانند نہیں پڑتی۔ میر تقی میر اردو غزل کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے غزل کو حیاتِ دوام عطا کی اسی لئے انہیں شہنشاہِ تغزل اور رئیس المتغزلین جیسے کئی خطابات سے نوازا گیا۔
شعر۱
بارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
تشریح
ناخدائے سخن میرتقی میر اپنے اس شعر میں اہل دنیا سے مخاطب ہو کر فرمارہے ہیں کہ زندگی کے گذارنے کے ڈھنگ یا انحصار ہم پر ہے۔ ہم غم و اندوہ کی راہ کا تعین کریں اور مشکلات و مصائب میں اپنی زندگی گذادیں۔ یا پھر زندگہ دلی کے ساتھ۔ لیکن ان دونوں راہوں میں ایسی انفرادیت پوشیدہ ہو کہ لوگ بے اختیار ہماری مثالیں دیں۔ اسی طرح ہمارا نام زندہ رہ سکتا ہے۔
اگر کوئی اپنی پریشانیوں اور بے بسی کا مقابلہ ہمارے حال سے کرلے تو ہمیں اپنے سے زیادہ قابلِ رحم جانے یا پھر دوسری صورت میں اگر کوئی اپنی خوش دلی کو آزمائے تو ہمیں اپنے سے بلند پائے۔ یہی ایک صورت ہے کہ لوگ ہمیں یاد رکھیں۔
اس شعر کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ خواہ ہم اپنی تمام عمر خوشی کے سہارے یا پھر غم کے سہارے گرادیں لیکن لوگوں کے لئی ایسے کام کریں اور اسطرح سے ان کے ساتھ پیش آئیں کہ وہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھو۔
شعر۲
عشق پیچھے کیطرح حسنِ گرفتاری ہے
لطف کیا سرو کے مانند گر آزاد رہو
تشریح
میر فرماتے ہیں کہ جذبہ عشق دائمی، لطیف اور خوشگوار ہوتا ہے اور عاشق، عشق کی تکالیف، مصائب اور آلام و مصائب سے کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ ایک سچے عاشق کا سرمایہ حیات تو دراصل اس کا عشق ہی ہوتا ہے۔
اہلِ عشق کا یہ دستور ہے کہ وہ ہمیشہ اہلِ حسن کے قیدی بنے رہتے ہیں۔ صاحب عشق حضرات کو چاہئے کہ جب وہ عشق میں گرفتار ہوں تو اس کی قید سے رہائی کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ مشکلات و مصائب اس کی قید سے رہائی کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ مشکلات و مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اپنے عشق کی معراج تک پہنچ جائیں۔ سرو کے درخت کی طرح نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی موسم اس پر اثر انداز نہیں ہوتا یعنی وہ بے حس ہوتا ہے ایسی بے حسی انسان بلکہ ایک عاشق کو زیب نہیں دیتی
مجھے گرفتارِ عشق رہنے دو بڑی مہربانی
میں آزادی کا قیدی بننا نہےں چاہتا
شعر۳
ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے
دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو
تشریح
اس شعر کی فنی خوبی یہ ہے کہ اس میں صنعتِ تلمیح استعمال کی گئی ہے عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ضروری نہیں کہ قیس کی طرح لیلی کے لئے جنگلوں اور ویرانوں کی خاک چھانی ماری جائے یا پھر فرہاد کی طرح پہاڑوں سے دودھ کی نہریں نکالی جائیں۔ میر کہتے ہیں کہ ہمارے عشق کے لئے موزوں ترین جگہ شہر کی پررونق آبادی ہے۔ دشت و کوہ میں تو ہر کوئی اپنے محبوب کے غم اپنے سینے سے لگائے رکھ سکتا ہے۔ لیکن لطف اور حصلہ کی بات تو یہ ہے کہ شہر کی رونق میں بھی عاشق اپنے معشوق کی ہی پرستش کرتا رہے۔
شعر۴
وہ گراں خواب جو ہے ناز کا اپنے سو ہے
داد بے داد رہو شب کو کہ فریاد رہو
تشریح
میر کہتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی محبوب کا التفات حاصل نہےں ہوا۔ ہمیں کبھی بھی اس نے لطف و کرم سے نہیں نوازا بلکہ ہمیشہ ہم سے بے نیازی سے پیش آتا رہا ہے۔
میر اس شعر میں گراں خوبی کر رعایت سے شب کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا محبوب اپنی خوبصورتی کے غرور میں مست و سرشار اپنی تمام ادا�¶ں کے ساتھ گہری نیند سوتا ہے۔ اسے اس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس کا عاشق کس کرب و اذیت اور اضطراب و بے چینی سے کروٹیں بدل رہا ہے۔ ہمیں بھی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ ہمارا حال دیکھ کر رحم کھائے یا نہ کھائے۔ ہم تو ایک سچے عاشق کی طرح اس کی یاد میں شب بیداری کریں گے خواہ اس کا کوئی صلہ ملے یا نہ ملے۔
شعر۵
میر مل مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے
اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو
تشریح
رئیس المتغزلین میر تقی میر اس شعر میں خود سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ یہ اجڑی ہوئی دنیا رنج و الم کا گہوارہ ہے۔ زمانے نے دہلی اور دلی کے زوال بھی دکھا ئے ہیں۔ میر کو بھی مجبور ہوکر دہلی چھوڑنا پڑا۔ ان دنوں میر نے دہلی نہیں چھوڑا تھا کہ محبوب کی یاد ان کا سرمایہ حیات تھی اوپر سے شہر کی تباہی و بربادی لیکن ایسی صورت میں بھی میر نے شہر سے کوچ نہ کیا۔ اور اسی حالت میں کہتے ہیں کہ پس اے میر! ہم تم سے کئی بار ملاقات کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں تم یہاںاپنے مخصوص اور افراتفری انداز میں زندگی گزاررہے ہو۔ ہماری دعا ہی کہ تمہیں اس برباد دنیا میں بھی اپنے طرز حیات پر قائم و دائم رکھے۔
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
وائی - شاہ عبدالطیف بھٹائی
حوالہ
شاہ صاحب کا نام ذہن میں آتے ہی خیالات انسانیت، مساوات، محبت، خلوص اور انسان دوستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شاہ لطیف بھٹائی کی ساری شاعری معرفتِ حق اور بندگانِ خدا کی محبت میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔ شاہ صاحب سادگی اور موسیقیت میں کمال رکھتے ہیں۔
بند۱
وہی ایک شایانِ جودوسخا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
کوئی بے ہنر یا اپاہج ہو کوئی
بہرحال بندوں پہ اس کی عطا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
تشریح
شاہ عبدالطیف بھٹائی، اللہ تبارک و تعالی کی تعرف بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پرودگار عالم ہی کی ذاتِ پاک ہمیں کچھ عطا کرسکتی ہے۔کرم و سخاوت خداوند تعالی کے ہی شایانِ شان ہیں۔ اللہ ہر شے کا خالق و مالک ہے ساری مخلوق اسی سے اپنی سکھ اور آرام کی بھیک مانگتی ہے اور وہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق عطا کرتا ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب یا پھر معذور و اپاہج وہی ہے جو سب کو عطا کرتا ہے۔ وہ غنی ہے جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت کے سمندر میں ڈبودے۔ اسی لئے ہر شخص اس کے درِ رحمت پر دستک دیتا ہے۔
بند۲
وہ چاہے تو عزت وہ چاہے تو ذلت
جسے جو ملا ہی اسی سے ملا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
تشریح
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے
وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسکو چاہے ذلت دیتا ہے۔
شاہ صاحب بھی اسی بات کو بیان کرتے ہیں کہ انسان کو جو بھی عزت و وقار حاصل ہے۔ یہ خداوند تعالی کا بخشا ہوا ہے۔ انسان کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اسے خدا کی مرضی کے بغیر حاصل کرلے گا۔ بلکہ اسے تو احسان مند ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی ہی ہمیں ہر شے سے نوازتا ہے۔ وہ جسے چاہے عطا کرے اور جسے چاہے محروم رکھے۔ اسی لئے ہر وہ شخص جو اللہ کی بڑائی سے واقف ہے اس کے آگے دستِ سوال دراز کرتا ہے۔
شعر۳
عدم سے کیا ہے اس نے تخلیق سب کچھ
وہی خالق بزم ہر دوسرا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
تشریح
شاہ سائیں خالقِ کائنات کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ خداوند تعالی ہمیشہ سے ہے لیکن کائنات کا یہ نظام جو ہمیں نظر آتا ہے ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے اس کو وجود بخشا اور جہاں جہاں مناسب سمجھا زندگی کی نعمت سے بھی نواز دیا۔ یہ زمین، چاند ستارے، آسمان، چرند اور پرند غرض سب کچھ اس کی تخلیقات ہیں۔ جب یہ فانی دنیا فنا کا جام پی لے گی تو دوسری دنیا اس کی منتظر ہوگی۔ جہاں پر یہاں سے زیادہ سکون و راحت ہوگا اور یہاں سے زیادہ مشکلات و مصائب بھی۔ اب کسی کو کیا ملا یہ اس موجودہ دنیا کے کئے گئے اعمال پر منحصر ہے اسی لئے لوگ درگاہِ الہی میں سر بسجود ہو جاتے ہیں کہ انہیں آخرت میں اچھا صلہ ملے۔
شعر۴
وہ قادر ہے ہر شے پہ قدرت ہے اسکو
اسی کے لئے ساری حمدوثناءہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
تشریح
شاہ عبدالطیف بھٹائی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر شے جو اس دنیا میں موجود ہو یا نہیں، سب پر قادر ہے اور کوئی شے اس کی قبضہ قدرت سے باہر نہےں۔ اور وہی کائنات کا مالک و مختار ہے۔ ایسی تمام تعریفیں اسی کی ذات کے لئے وقف ہیں۔
وہ ہر شے پر قادر ہے حتی کہ نہ ہی رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور نہ ہی دن میں اتنی طاقت ہے کہ رات کو جا پکڑے۔ جب اللہ چاہتا ہے دن طلوع ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی جاہتا ہے رات اپنے سیاہ پر پھیلائے نمودار ہوجاتی ہے۔ اسی لئے انسان اسی سے اپنی طلب بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے لامحدود اختیارات کا استعمال کرکے جو چاہے وہ عطا کرسکتا ہے۔
شعر۵
انہیں پر ہوا ہے عتاب اس کا نازل
جنہیں حرضِ دولت نے بہکادیا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
تشریح
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ کا لطف و کرم صرف ان لوگوں پر ہوتا ہی جو ہر طرح کے لالچ سے پرہیز کریں۔ اگر کوئی شخص لالچ و ہوس سے کام لے گا تو اس کی عادت اس کے لئے باعثِ عذاب ثابت ہوگی۔ اگر انسان نیک اعمال کرلے خداوند تعالی کے فرمان پر عمل کرے اور معرفتِ الہی حاصل کرلے تو اسی دنیا کی کسی شے وہ کشش دکھائی نہ دے گی۔ جبکہ ایسے لوگ جو دولت کے پجاری بن جاتے ہیںاور سانپ کی طرح اس پر جم کر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اپنی دولت میں سے کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ وہ دراصل اپنے لئے جہنم کا راستہ استوار کررہے ہیں۔
ہم اسی لئے اللہ تبارک و تعالی سے دعاگو ہیں اور اس کے در پر سوال کرتے ہیں کہ ہمیں حرص و حوس سے دور رکھ تاکہ ہم تیری خوشنودی سے جنت کے قریب ہوجائیں۔
شعر۶
لطیف ایسے آقا کی تعریف کیا ہو
مقدم بہرطور اس کی رضا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
تشریح
شاہ سائیں خود سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے لطیف! ایسے آقا و مالک کی تعریف بھلا کیسے ممکن ہو جو ہر شے کا خالق و مالک ہے اور ہر شے اس کے اشارے کی پابند ہے۔ کہتے ہیں ہماری سوچ اس کی تعریف کی اصل بلندی تک پہنچنے سے قاصر ہے۔اس کی تعریف کو ہم اپنے الفاظ میں سمونے سے قاصر ہیں۔ بہر حال کچھ بھی ہو، ہمیں تو اس کی رضامندی مقصود و مطلوب ہے اور ہم ہر حال میں اسی کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جوکہ عطا سے فیضیاب کرتا ہے۔ اسی لئے ہر شخص اس کے در پر حاضر، خدمت ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کرلے تاکہ آخرت میں سکون کی زندگی بسر کرے
__________________
Re: Explanation of Peoms
شعر کی تشریح
شعر کی تشریح
--------------------------------------------------------------------------------
نعت - مولانا ظفر علی خان
حوالہ
مولانا ظفر علی خان کا کلام زورِ بیان اور جوشِ جذبات سے معمور ہے ان کا نعتیہ کلام خاص طور سے جذبے کی صداقت اور عشق کے والہانہ پن کے لئے مشہور ہے۔
شعر۱
دیکھی نہیں کسی نے اگر شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
دیکھے کہ جبرئیل ہے دربانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
تشریح
یہ شعر مولانا ظفر علی خان کی نعت سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبہ عالی کی انتہا دکھائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ عظمت کی کوئی انتہا نہیں۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جبرئیلِ امین جیسا بلند پایہ فرشتہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کا نگہبان ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا یہ حال ہی کہ روح الامین جیسے فرشتے جو اللہ کے مقرب ہیں سرورِ کونین کے گھر کی دربانی پر فخروناز کرتے ہیں۔
شعر۲
اسلام کا زمانہ میں سکہ بٹھادیا
اپنی مثال آپ ہیں یارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
تشریح
مولانا ظفر علی خان اس شعر میں صحابہ کرام رضہ کے ان کارناموں کسی اشارہ کرتے ہیں جو کہ انہوں نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوکر اسلام کی بے پناہ محبت میں انجام دئیے۔ دنیا جانتی ہے کہ صحابہ کرام رضہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اٹھے تو نہایت ہی ناسازگار حالات تھے۔ پھر بھی بڑی ہمت، جوانمردی، جرات و ایثار اور سرفروشی سے کام لیتے ہوئے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ دنیا میں اسلام کی ساکھ بٹھادی۔ انہوں نے اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے کوہ دامن اور صحرائے و دریا ایک کردئیے یہ کام آسان نہ تھا لیکن جوش و عشق نے اسے آسان بنادیا اور انہوں نے عالمِ اسلام پر عظمت کا نقش ثبت کردیا۔
شعر۳
میرے ہزار دل ہوں تصدق حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میری ہزار جان ہو قربانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
تشریح
اس شعر میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک والہانہ انداز ملتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ میں انہیں دل وجان سے پیار کرتا ہوں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں میرے لئے دل و جان کی کوئی قمت نہیں۔ ایسے ہزاروں دل و جان میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔
اس شعر میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پرخلوص جذبے کی جھلک دکھائی گئی ہے۔
شعر۴
رشتہ مرا خدا کی خدائی سے چھوٹ جائے
چھوٹے مگر نہ ہاتھ سے دامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
تشریح
مولانا ظفر علی خان نے اس شعر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے شیدائی اور خدائی جذبہ عشق کو نمایاں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں سرورِ کائنات کی خاطر ساری دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرسکتا ہوں۔ دنیا کی راحتیں اور نعمتیں، رنگینیاں اور دلچسپیاں سب کچھ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں چھوڑ سکتا ہوں، میری سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ میرے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی تمنا نہ ہو مجھ سے دنیا کی تمام دلفریبیاں چھوٹ جائیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عقیدت میں کمی نہ آئے میرا دل ہمیشہ تمنائے محبوب سے زندہ رہے اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر گامزن رہوں۔
شعر۵
لائے نہ کیوں یہ نغمہ ملائک کو وجد میں
گاتا ہے جس کو بلبلِ بستانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
تشریح
اس شعر میں مولانا ظفر علی خان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو بلبل سے اور اپنی نعتیہ شاعری کو نغمہ سے اور اسلام کو باغ سے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح شعر کی دلکشی میں مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں کہ میرا یہ نغمہ اتنا دلفریب اور وجد آفرین ہے کہ جسے سن کر فرشتوں پر بھی کیف و سرور کا عالم طاری ہوا جائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں اس لئے کہ یہ نغمہ گلشنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی رسولِ خدا کا سچا عاشق گارہا ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے اشعار کے حسن سے مضمون کو نہایت موثر اور دلکش بنایا ہے۔
بقول درد
تر دامنی پر شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
__________________
حمد - مولوی محمد اسمعیل میرٹھی
حوالہ
مولوی محمداسمعیل میرٹھی بچوں کے لئے نصیحت آموز نظمیں نہایت سلیس روں اور دلنشین پیرائے میں لکھنے کے باعث شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا لہجہ بڑا نرم اور طرزِ ادا نہایت سادہ اور واضح ہے۔
شعر۱
خدایا اول و آخر بھی تو ہے
خدایا باطن و ظاہر بھی تو ہے
تشریح
یہ شعر ان کی نظم حمد سے لیا گیا ہی اس میں وہ اپنے رب کریم سے کہہہ رہیں کہ اے خدا! تیری ذات بزرگ و برتر ہمیشہ سے ہے یعنی اس وقت سے ہے جب کچھ نہ تھا اور بقول غالب
نہ تھا کچھ تو خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
شعر۲
وہ اول تو کہ ہے آخر سے آخر
وہ آخر تو کہ ہے اول سے فاخر
تشریح
اس شعر میں فرماتے ہیں کہ سب کچھ فنا ہوجائے گا مگر ذاتِ خداوندی ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس دنیائے رنگ و بو میں، یہاں کی ہر شے میں اے خدا! تو ہی جلوہ افروز ہے۔ حسنِ کائنات کے پیچھے دراصل تیرا ہی حسن پوشیدہ ہے ۔ ہماری ظاہری نگاہوں کو جو کچھ نظر آتا وہ تیرا ہی عکس ہے اور جو کچھ ہم دنیاوی حجابات اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے یااپنی کم نگاہی اور بصیرت سے محرومی کے باعث نہیں دیکھ سکتے اس میں بھی تو ہی پنہاں ہے۔
بقول درد
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
توہی نظر آیا جدھر دیکھا
شعر۳
نہیں اول کو آخر سے جدائی
ورائے عقل ہے تیری خدائی
تشریح
اسمعیل میرٹھی کی خوبصورت حمد سے اخذ کردہ اس شعر میں وہ خدائے بزرگ و برتر کی عظمت و شان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے خدا تیری جوشان ازل میں تھی وہی حال میں بھی ہے۔ اور ابد تک رہے گی۔ تیری ذات انسان کی عقل و فہم سے بالاتر ہے اور تیری قدرت اور تیری عظمت سمجھنے سے انسان قاصر ہے۔ تیری عظمت و برتری کا شعور ہم کم نگاہوں، بے بصیرت اور کوتاہ بینوں کے بس کی بات نہیں۔
شعر۴
زمین و آسمان کا نور ہے تو
مگر خود ناظرومنظور ہے تو
تشریح
اسمعیل میرٹھی کی حمد کے اس شعر سے ذہن بے ساختہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف جاتا ہے
ترجمہ: اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
اسمعیل میرٹھی نے اس شعر میں اس موضوع کا آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں میں نورِ الہی جلوہ گر ہے۔ کائنات کے حسن کا مشاہدہ کرنے والا خالق دوجہان ہے اور وہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے ان میں بھی خدا ہی کا حسن موجود ہے دوسرے لفظوں میں خدا خود ہی اپنی حسن کا جلوہ دیکھتا ہے۔ اس نازک نکتہ کو غالب نے اپنے مخصوص طرز میں کس خوبصورتی سے واضح کیا ہے
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
شعر۵
مسلم ہے تجھی کو حکمرانی
کہ تیری سلطنت ہے جاودانی
تشریح
اسمعیل میرٹھی نے اپنی حمد کی اس شعر میں بڑی حقیقت افروز بات کہی ہے۔ وہ معبودِ حقیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے خدائے عظیم و برتر! دنیا کی حکمرانی تجھی کو زیب دیتی ہے تیری ہی حکومت اور سلطنت کو بقا و پائندگی حاصل ہے۔ اس دارِ فانی میں جتنے بھی حکمراں و شہنشاہ آئے وہ سب فنا ہونے کے لئے آئے تھے۔ اسی لئے سب فنا ہوگئے اور سب کی سلطنت نیس و نابود ہوگئیں۔ تیری حکومت اور پائندگی کے سب قائل ہیں۔
Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
فہرست مضامین
* گزرا ہوا زمانہ
* سومناتھ کی فتح
* رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
* نظریہ پاکستان
* اردو اور علاقاءی زبانیں
* سچی ہمدردی
* توصیف کا خواب
* بنتِ بہادر شاہ
* قرطبہ کا قاضی
* چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ
* ہاسٹل میں پڑھنا
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
ہاسٹل میں پڑھنا
مرکزی خیال
ہاسٹل میں پڑھنا، احمد شاہ پطرس بخاری کا وہ مضمون ہے جس میں انہوں نے مزاحیہ اور دلچسپ انداز میں طالبعلموں کے اس طبقے کی فطرت ظاہر کی ہے جو پڑھائی کو تفریح طبع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اور درسگاہوں کو تفریح گاہ اور وہ اس ادارے سے اس قدر مانوس بھی ہوجاتے ہیں کہ چھوڑنا نہیں چاہتے لہذا جان کے فیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
خلاصہ
احمد شاہ پطرس بخاری نے اس مضمون کی ابتداءاپنے بی- اے سال اول میں ناکامی کے ذکر سے کی ہے۔ اس سے پہلے وہ ایف-اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرچکے تھے مگر وہ بھی اس طرح کہ ان کو ریاضی میں کمپارٹمنٹ امتحان دینا پڑا تھا۔ چنانچہ بی-اے میں انگریزی، تاریخ اور فارسی کے مضامین پڑھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایف-اے کے ریاضی کی تیاری بھی جاری رکھنی پڑی جو کہ ان کے لئے بڑی دشوار ثابت ہوئی۔ اسی دشواری کے پیشِ نظرانہوں نے سب کے مشوروں کے بعد بی- اے میں ریاضی کو خےرباد کہہ دیا تھا۔ مگر ایف - اے کاپرچہ ریاضی تو پاس کرنا ہی تھا۔ نتیجہ آیا تو فارسی اور تاریخ میں فیل ہوگئے۔ فارسی میں فیل ہونے سے ان کو بڑی ندامت ہوئی کیوں کہ ان کا تعلق علم دوست گھرانے سے تھا وہ تو خدا کی مہربانی ہوئی کہ اگلے سال فارسی میں اس سے اگلے سال تاریخ مےں پھر اگلے سال انگریزی میں پاس ہوگئے۔
بی-اے سال دوئم میں بھی کچھ یہی صورت حال رہی۔ کبھی وہ ایک پرچے میں فیل ہوئے اور کبھی دوسرے پرچے میں اسی طرح انہوں نے متعدد بار امتحان دئیے۔
آخری دفعہ بھی انہیں فیل ہونے کی توقع تھی وہ سوچ رہے تھے کہ عمر بھر آزادی نہیں ملی۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے چھوٹے سے مکان مےں رہے اور جب یہاں سے نکلیں گے تو زندگی بھر اپنے بنائے ہوئے ڈربے نما مکان میں رہنا پڑے گا۔ چنانچہ اس دفعہ ہاسٹل مین رہ کر پڑھا جائے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے سفارشیں کروائیں اور گھر والوں کو بڑے مشکل سے رضامند کیا اور بے چینی کے ساتھ نتیجے میں فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ مگر سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سپنے ٹوٹ گئے۔ نتیجہ آیا تو وہ کامیابی حاصل کرچکے تھے۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ
مرکزی خیال
اس سفر نامے میں ابنِ انشاءنے ہمسایہ دوست ملک چین میں اردو کی مقبولیت کو بیان کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ زبانیں کسطرح سے آپس مےں محبت اور اتفاق کو بڑھاتی ہے۔ چین میں جہاں انہوں نے کچھ عرصے میں چینی زبان کو سیکھنے کی کوشش کی وہاں ان کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے چینی بھائی اردو بڑے ذوق و شوق سے سیکھتے ہیں اور باقاعدہ اردو میں تعلیم کا انتظام ہے۔ اردوزبان کو سیکھنے کو ذوق و شوق بجائے خود اردو کی مقبولیت ثبوت ہے۔ غیر ملکی زبانوں سے ان کی یہ دلچسپی ہمیں بھی دوسری زبانوں کو کو سیکھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔
خلاصہ
ابن انشاءکو جب ہمسایہ مالک چین جانے کا موقع ملا تو وہ چینی زبان سے واقف نہ تھے۔ لیکن انہوں نے کوشش کرکے اس زبان کی ابتدائی باتیں سیکھ لی۔ پھر انہیں یہ اطمینان تھا کہ چےنی لوگوں کی گفتگو میں جو باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آئینگی وہ ان کا ترجمان ان کو اردو میں سمجھاتا رہے گا۔ بہر حال چین پہنچ کر وہ ترجمان کی عدم موجودگی میں بھی وہاں کے لوگوں کی باتیں آسانی سے سمجھتے رہے۔ یہاں طنزیہ و مزاحیہ انداز میں انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ زبان زدو عام قسم کے الفاظ مثلاً شے شے(شکریہ) ان کے بہت کام آئے۔ ان دنوں اردو کے مشہور ادیب خاطر غزنوی بھی چین میں ہی تھے اور چینی زبان سیکھ رہے تھے۔ ابنِ انشاءنے طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ کافی دن گزرنے کے باوجود چینی زبان سے ان کی واقفیت بھی رسمی تھی۔
ایک دن ابنِ انشاءیونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پہنچے وہاں مادام شان یون اردو پڑھانے پر مامور تھیں۔ انہوں نے مادام شان یو ن کو اپنی کتابیں پیش کیں اور پھر انکا شعبہ اردو کے طالب علموں سے تعارف ہوا اس پر یونیورسٹی اور شعبہ اردو میںچینی دستورکے مطابق سب نے تالیاں بجا بجا کر ان کا استقبال کیا۔ اردو پڑھنے والے جن طلباءسے تعارف ہوا ان میں کچھ اردو فرفر بولتے تھے۔ اور کچھ دقت کے ساتھ۔ اس کے بعد جب ہوسٹل دیکھنے کا موقع ملا تو یہاں بڑی سادہ سی صورتحال سامنے آئی۔ ہر کمرے میں دومنزلہ چارپائی اور ایک میز تھی۔ اور کتابوں کے لئے ایک الماری رکھی تھی۔ طلبہ بہرحال بڑی لگن سے اردو سیکھنے میں مصروف نظر آئے۔ مثلاً ان کی باتوں میں تذکیروتانیث کی کوئی غلطی دکھائی نہ دی۔
وہاں اردو کا اخبار ”جنگ“ بھی آتا تھا۔ اس کے بعد ابنِ انشاءکو لائبریری دیکھنے کا موقع ملا وہاں ادب کی کتنی ہی کتابیں موجود تھیں۔ ابنِ انشاءجس وفد کے ساتھ چین گئے تھے اس کے سربراہ چین میں اردو سے یہ دلچسپی اور ان کایہ فروغ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے شعبہ اردو کے طلباءکو چائے کی دعوت دی پھر جب ابن انشاءکو اردو کی صدر شعبہ کی تحریر دیکھنے کا موقع ملا تو وہ مزید متاثر ہوئے اس کہ لئے ان کا خط خاصہ صاف تھا۔
غرض طالبعلموں نے اردو میں یہ دسترس دوسال سے بھی کم عرصے میں حاصل کی تھی اور ان کو اردو سکھانے والی استاد نے اردو کسی ادارے سے نہیں بلکہ ایک چینی سے پڑھی تھی ان سب کی اردو سے وابستگی دیکھ کر ابنِ انشاءاور تمام ارکانِ وفد کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
قرطبہ کا قاضی
مرکزی خیال
امتیاز علی تاج نے اپنے اس ڈرامے قرطبہ کا قاضی میں جس مرکزی کردار کو جگہ دی ہے وہ یہ ہے کہ انصاف کا ترازو عام و خاص، امیر و غریب، بلند و پست اور شاہ و گدا سب کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ ایک عادل اور منصف حکمراں کی شان یہی ہے کہ وہ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتے اور اس کی حکمرانی میں انصاف کا بول بالا رہے۔ خواہ اس کی خاطر اسے بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے
شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن
خلاصہ
شہرِ قرطبہ کے قاضی یحیی بن منثور کا بیٹازبیر ایک رشتہ دار کی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ ایک اور نوجوان بھی مہمان کی حیثیت سے قاضی کے گھر میں ٹہرا ہوا تھا وہ بھی اس لڑکی پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ زبیر رقابت کے جذبے سے مغلوب ہوکر اپنے رقیب کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور قاضی عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو پھانسی کی سزا سناتا ہے۔
قاضی کے قدیم نمک خوار عبداللہ اور اس کی بیوی حلاوہ قاضی کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زبیر جب تین دن کا تھا تو اس کی ماں چل بسی اورحلاوہ ہی نے اسے دودھ پلایا تھا۔ وہ اسے ماں کی طرح چاہتی تھی۔ عبداللہ نے بھی زبیر کو گود میں کھلایا تھا۔ عبداللہ اور حلاوہ کو معلوم ہے کہ زبیر قصوروار ہے اور قاضی بڑا اصول پسند ہے۔ دونوں سخت پریشان ہیں۔ زبیر کے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ مگر عبداللہ کو اطمینان ہے اس کا خیال ہے کہ شہر کا ہر فرد زبیر کا حامی ہے اور کوئی بھی اسے تختہ دار پر چڑھانے کے لئے تیار نہیں۔ جلاد بھی روپوش ہوگیا اور عدالت کا کوئی افسر یا ماتحت بھی اس ناخوش گن فعل کو انجام دینے کے لئے تیار نہیں۔ بس ایک بی صورت رہ جاتی ہے کہ جلاد کا انتظام باہر سے کیا جائے۔ اس امکان کو دیکھتے ہوئے زبیر کے حامیوں نے شہر کے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی۔ حلاوہ پئر بھی مایوس ہے وہ جانتی ہے کہ قاضی اپنے فیصلے پر درآمد کرکے رہے گا۔
بے شمار لوگ قاضی کے مکان کے باہر کھڑے ہیں تاکہ ہر ممکن طریقہ سے اس سزا پر عمل درآمد نہ ہونے دیں۔ اتنے میں قاضی مکان کی بالائی منزل سے نیچے آکر پوچھتا ہے کہ سزائے موت کا انتظام کیوں نہیں ہورہا تو عبداللہ جواب دیتا ہے کہ اس حکم کی تعمل کے لئے کوئی بھی آمادہ نہیں۔ عدالت کے آدمیوں کو بلایا جاتا ہے تو وہ بھی معذوری ظاہر کرتے ہیں۔ غرض قاضی ہرطرف سے مایوس ہوکر عدالت کے آدمیوں کو کنجیاں دے کر حکم دیتا ہے کہ زبیر کو تختہ دار تک لے جاو۔
غم کی شدت سے قاضی کی حالت غیر ہورہی ہے مگر وہ انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دے دیتا ہے۔ پھر وہ بھاری قدموں سے غم سے نڈھال اوپری منزل پر جاکر کمرے کو اندر سے ہمیشہ کے لئے بند کرلیتا ہے۔ اپنے غم سے نجات کی اسے صرف یہی ایک صورت نظر آئی تھی کہ وہ زندگی سے منہ موڑ لے۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
بنتِ بہادر شاہ
مرکزی خیال
تاریخ قوموں کی عروج و زوال کا نام ہے۔ قسمت کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ بڑی بڑی قومیں پل بھر میں تباہ ہوجاتی ہیں۔ حکمرانی قدرت کی مہربانی ہے لیکن یہ حکمراں طبقے کا ظرف ہے کہ وہ محکوم کے ساتھ کیسا برتاو اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہانی بھی اسی حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے اور اس حقیقت افروز بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انقلابِ زمانہ اور حالات کی نیرنگی سے کوئی نہیں بچ سکتا
سروری ہے فقط زیبا اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی بتان آزری
خلاصہ
بہادرشاہ ظفر اوردیگر حاکمانِ وقت کی دلگداز داستان بیان کرنے میں خواجہ حسن نظامی کو گویا ملکہ حاصل ہے۔ وہ بڑے خوبصورت پیرائے میں ۷۵۸۱ءکی جنگِ آزادی اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کی چہیتی بیٹی زمانی بیگم اس دورِ ابتدا کا حال بتاتی ہےں کہ جس نے ۷۵۸۱ءکے المیے کے نتیجے میں شاہی خاندان کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
دہلی کے لال قلعے میں کہرام مچا ہوا تھا۔ بہادر شاہ ظفربے تخت و تاج ہورہے تھے۔ رات کو ظلِ سبحانی نے مجھے بلایا میں پہنچی تو حضور معلی جائے نماز پر بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھے پاس بلایا اور حالات کی نزاکت کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ پناہ کی تلاش میں نکل پڑوں۔
ہمارا چھوٹا سا قافلہ منہ اندھیرے رتھ میں پہنچ کر اتھیان کے مکان پر اتر۔ دوسرے دن ہم جاٹوں کے ہاتھوں لوٹوں گئے۔ گاوں کے زمیندار کو ہمارے حال پر رحم آیا اور وہ ہمیں اپنی بیل گاڑی میں سوار کرکے ہماری خواہش پر میر فیض علی کی قیام گاہ پر چل پڑے جو شاہی حکیم تھے۔ اور ضلع میرٹھی میں رہتے تھے مگر انہوں نے نہایت بے مروتی دکھائی اور پناہ دینے سے انکار کردیا۔ ہماری اس بے بسی اور بے سروسامانی کی حالت مےں صرف زمیندار بستی رہ گیا تھا۔ جس نے ہماری رفاقت نہ چھوڑی اس کی رفاقت اور رہنمائی مےں ہم حیدرآباد پہنچے اور ایک کرائے کے مکان میں کچھ عرصے تک قیام کیا۔
حسنِ اتفاق سے میاں نظام الدین صاحب کو ہماری خبر ہوگئی اور ان کی عنایت سے ہم مکہ پہنچے اور وہاں عبدالقادر کے یہاں قیام کیا جو کہ کسی زمانے میں ہمارا غلام تھا اور جسے میں نے آزاد کرکے مکہ بھیج دیا تھا۔ چند روز کے بعد سلطانِ دوم نے ہمارے اخراجات کے لئے معقول رقم مقرر کردی ہم نے وہاں نو برس قیام کیا اور آخر میں جب ہمیں دہلی کی یاد نے بے قرار کردیا تو ہم دہلی آگئے۔ یہاں انگریزی سرکار نے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
توصیف کا خواب
مرکزی خیال
علامہ راشدالخیری نے کہانی توصیف کا خواب کا تانا بانا اس مرکزی خیال کے گرد بنا ہے کہ انسانی ہمدردی سب سے بڑی عبادت ہے
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
انسان جب دوسروں کی مدد کرتا ہے تو خدا اس سے خوش ہوتا ہے اور اسے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں سرخرو کرتا ہے۔
خلاصہ
توصیف سلطان ایک غریب گھرانے کی تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ اس کی شادی ایک دولت مند تاجر کے بیٹے موسی سے ہوگئی جو دلتِ حسن سے بھی مالامال تھا۔ اس بے جوڑ شادی کے باوجود توصیف نے اپنے حسنِ کردار، ایثار، قربانی اور اخلاقی اطوار سے شوہر اور سسرال والوں کے دل جیت لئے اور ہر کوئی اسی کے گن گانے لگا اور یہ شادی بڑی پرمسرت اور کامیاب ثابت ہوئی۔
ساس اور سسر کے انتقال کے بعدتوصیف کے اوپر گھر کی مکمل ذمہ داری آگئی جسے اس نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ دریائے بگلی کے کنارے ایک شاندار کوٹھی میں وہ اور اس کا شوہر اپنے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ جائداد کی ریل پیل کے باوجود توصیف نے موسی کے برعکس تھی وہ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہ ہوئی۔ ایک روز شام کے وقت میاں بیوی ٹہلتے ٹہلتے ایک بے آباد جگہ جا نکلے۔ جہاں ایک مسجد نہایت بوسیدہ حالت میں نظر آئی اور توصیف نے اسے ازسرِنو تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا۔ واپسی پر کچھ فاصلے پر ایک عورت کو اپنی جھونپڑی کے پاس دو تین بچوں کے ساتھ اداس بیٹھا دیکھا تو توصیف بازپرس کے لئے رکی۔ عورت نے بتایا کہ اس کا خاوند ایک زمیندار کا کاشتکار تھا۔ پچھلے سال وبا میں وہ مرگیا۔ اس کی دوادارو کے سلسلے میں عورت زمیندار کی چالیس روپے کی مقروض ہوگئی اور قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے ظالم اور بے رحم زمیندار نے اس سے اس کے بیٹے کلیم کو چھین لیا۔ یہ کہہ کر عورت زاروقطار رونے لگی۔ اور ان سے بچے کی بھیک مانگنے لگی مگر انہوں نے اسے ڈھکوسلے سمجھ کر سنی ان سنی کردیا۔
دوسرے دن کی سے توصیف کے حکم سے مسجد کی تعمیر شروع ہوگئی اور ایک مہینے کی قلیل مدت میں ایک عالی شان مسجد تعمیر ہوگئی۔ سردی کا موسم تھا اتفاق سے توصیف کے بڑے بیٹے کو سخت بخار تھا اور اس کی حالت روز بروز خراب تر ہوتی جارہی تھی۔ توصیف کو اس عورت کا خیال آیا جس کے بیٹے کو زمیندار نے چھین لیا تھا۔ مامتا کے احساس سے مغلوب ہوکر وہ عورت کو ساتھ لیکر اور رقم ادا کرکے اس کے بیٹے کو زمیندار کے قبضے سے چھڑا لائی۔ عورت سراپا تشکر بن کر اسے ہزاروں دعائیں دینے لگی۔ توصیف گھر آئی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بخار اتر گیا تو خیر ہے ورنہ حالت بہت تشویشناک ہوجائے گی۔ توصیف کے دل پر مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔ اسی اثناءمیں اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی بزرگ یہ کہہ رہے ہیں کہ
خدا کا اصلی گھر تو اس عورت کا دل تھا تونے اس کے بچے کو ملوادیا اب تو بھی اپنے بچے سے مل۔
ابھی توصیف عالم خواب میں ہی تھی کہ اسے موسی کی مسرت بھری آواز نے چونکا دیا
الہی تیرا شکر ہے بخار اتر گیا۔
گھبرا کر اٹھی تو دیکھا کہ کلیم کا بخار ٹوٹ چکا ہے اور وہ بالکل ٹھیک ہوگیا ہے
یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
سچی ہمدردی
مرکزی خیال
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی کہانی سچی ہمدردی کا تانا بانا اس مرکزی خیال کے گرد بنا ہے کہ انسانوں کو مظلوموں اور بے کسوں کے ساتھ عملی طور پر ہمدردی کرنی چاہئے۔
ڈپٹی نذیر احمد نے اس اخلاقی قدر کی بھی عظمت و اہمیت جتائی ہے کہ نیکی کو حصولِ شہرت کا وسیلہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ مشہور کہاوت ”نیکی کر دریا میں ڈال“ کے مصداق نیکی کرکے بھول جانا چاہئے
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
خلاصہ
علیم کو ایک مرتبہ عید کے موقع پر اس کی امی نے ایک نفیس اور بیش قیمت ٹوپی بنوادی تھی جسے سر پر ڈالے وہ اپنی خالہ جان کے گھر جارہا تھا۔ وہ مسکین کے کوچے مےں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک گھر پر لوگوں کا ہجوم ہے اور ایک بوڑھی عورت کے غریب خاوند کو سپاہی اس لئے پکڑ کر لے جارہے ہیں کہ اس نے کسی بنیے کا قرض ادا نہ کیا تھا۔ وہ شخص اپنی تنگدستی کی وجہ سے یہ قرض ادا نہ کرسکا تھا اور بنیے نے عدالتی کاروائی کرکے بوڑھے خان صاحب کے خلاف ڈگری جاری کرالی تھی۔
لوگوں کے کہنے سننے سے بننیا اس بات پر رضامند ہوگیا کہ پانچ روپے اصل اور دو روپے سود کل سات روپے دے دیں۔ تو وہ قبول کرکے فارغ خطی لکھ دے گا لیکن بدقسمتی سے خان صاحب کا کل اثاثہ چار ساڑھے چار روپے سے زیادہ کا نہ تھا۔
قرض کی رقم پوری کرنے کے لئے اپنی چھ برس کی بچی کے کانوں سے چاندی کی بالیاں تک اترنے کی نوبت آگئی۔ یہ درد ناک منظر علیم سے دیکھا نہ گیا اور اس کے دل میں سچی ہمدردی کا جذبہ امڈ آیا۔ وہ سیدھا بازار پہنچا اور اپنی ٹوپی صرف چھ روپے میں بیچ دی اس کی جیب میں ایک روپے چھ آنے نقد موجود تھے یہ سات روپے لیکر وہ سیدھا خان صاحب کے گھرگیا۔ مگر انہیں سپاہی لے جاچکے تھے اور گھر میں ایک کہرا م مچا ہوا تھا۔
غرض خان صاحب کی تلاش میں فوراً کسی کو بھیجا گیا جو بنیے کا قرض ادا کرکے انہیں جلد چھڑا لایا۔ تمام اہلِ خانہ علیم کی پرخلوص ہمدردی اور بروقت امداد کے بے حد مشکور ہوئے اور اس پر جان چھڑکنے لگے۔ علیم گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں بھائی جان سے مڈبھیڑ ہوگئی انہوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹوپی بیچ کر چنے کھا گئے۔ علیم چپ رہا اس کی خاموشی سے امی کو بھی کچھ بدگمانی ہوچکی تھی۔
غرض ایک دن وہ اپنی امی جان کو پنڈولی مےں سوار کراکے اپنی خالہ جان کے یہاں جارہا تھا۔ راستے میں خان صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اور دعائیں دیتے رہے۔ ان کے خلوص اور تپاک کی بارے مےں امی نے پوچھاس تو علیم نے بات ٹال دی۔ خان صاحب نے گھر جاکر شاید علیم کے بارے میں خبر دی ہو، ان کی بیوی علیم کی امی سے ملیں اور اس کے حسنِ سلوک اور ہمدردی کی تعریف کرتے ہوئے سارا واقعہ تفصیل سے سنادیا۔ اب جو علیم کی امی گھر لوٹیں تو ٹوپی کا راز طشت ازبام ہوچکا تھا۔ امی نے ٹوپی کا ذکر کیا تو علیم مسکرا کر رہ گیا۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
نظریہ پاکستان
مرکزی خیال
پاکستان کا نظریہ صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد عملی طور پر اسلامی زندگی کا تصور ہے یعنی زندگی اس شکل مین ہونا ضروری ہے جو اخوت، مساوات، عدل، دیانت، خداترسی، انسان ہمدردی اور کردار کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ نظریہ پاکستان کا قیام ایک نظریہ، ایک عقیدہ اور ایک کلمہ کی وجہ سے عمل میں آیا ہے۔ اس کا مقصد اسلامی اصولوں کی نشرواشاعت اور دنیاوالوں کے سامنے ایک مثالی مملکت کا نمونہ پیش کرنا ہے۔
خلاصہ
اس سبق میں ڈاکٹر غلام مصطفی نے نہایت عمدہ پیرائے میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کی ہے۔ نظریہ پاکستان دراصل اسلامی قومیت کا نظریہ ہے جس کی بنیاد لاالہ الااللہ پر ہے۔ یہ نظریہ رنگ و نسل اور وطن کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور ایک عقیدہ، ایک نظریہ اور ایک کلمے کے پڑھنے والوں کو ایک لڑی میں پرودیتا ہے۔
نظریہ پاکستان کا مطلب یہی تھا کہ ایک عقیدہ اور ایک کلمہ کے پڑھنے والے ایک جگہ جمع ہوجائین بلکہ ایک اہم مقصد یہ تھا کہ نئی مملکت ایک مثالی اسلامی حکومت قائم کرے جہاں اللہ کا قانون ہو اور جہاں کے لوگ اسلامی قواعدوں کے امین ہوں۔ غیر منقسم ہندوستان کے ہندو�¶ں کی ثقافت، مذہب، رہن سہن اور عقیدئہ مسلمانوں سے بالکل مختلف تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے انگریزوں کی ساتھ مل کر صرف مسلمانوں پر مظالم توڑے بلکہ ان کے کاروبار اور ملازمت وغیرہ سے محروم کرکے غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا۔ ان حالات سے قیام پاکستان کا مطالبہ اور زیادہ شدت پکڑ گیا اور برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کے آگے ہندو�¶ں اور انگریزوں کی ایک نہ چلی اور قائدِاعظم کی قیادت میں اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں ایک آزاد مملکت ”پاکستان“ کی صورت حاصل ہوئی۔
پاکستان کے تحفظ اور بقاءمیں نظریہ پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس کی رو سے ہماری زندگی دیانت، ہمدردی، اخوت اور عظمت کردار کی حاصل ہونی چاہئے۔ اتنے عرصے میں ہم نے جو ترقیکی ہے اس سے ملک کا شمار دنیا کی اہم ممالک مےں ہوتا ہے۔ اگر ہم آئندہ بھی نظریہ پاکستان کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو ترقی کی راہوں پر گامزن رہیں گے۔
ہمیں ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے جو خدا اور اس کے رسولﷺ کی پیروی میں نہ ہو۔ اس طرح ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
مرکزی خیال
علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے مضمون رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق میں یہ مرکزی خیال پیش کیا ہے کہ سیرت النبی ہر دور میں انسانیت کا اعلی ترین معیار رہا ہی۔ بلاشبہ ان کی پیروی ہی معراجِ انسانیت ہے۔
خلاصہ
علامہ شبلی نعمانی کی ایک نامکمل رہ جانے والی تخلیق سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا علامہ سید سلیمان ندوی کے سر ہے۔ یہ سبق اسی کتاب کا ایک اقتباس ہے۔ اس سبق میں سید سلیمان ندوی نے نہایت سادہ اور دلکش انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کئے ہیں۔ کسی نے حضرت عائشہ سے صدیقہؓ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ
جو کچھ قرآن میں ہے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بہت بلند تھے آپ بہت ملنسار تھے ہر ایک کے ساتھ مہربانی فرماتے تھے اور رحمدل تھے۔ انتہائی درجے کے سخی اور فیاض تھے ۔ جس قدر ہوسکتا لوگوں کے ساتھ احسان فرماتے کبھی کسی کو منع نہیں کیا۔ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے تھے۔ گھر میں جب تک کوئی شے رہتی اور خیرات نہ کردی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آرام نہ فرماتے۔ دنیا سے کوئی دلی لگاو نہ تھا۔ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ مسلمان ہو یا کافر ہو یا پھر مشرک، ہر ایک کی خاطر کرتے خود اس کی خدمت کرتے، راتوں کو اٹھ کر دیکھ بھال کرتے، پھٹے کپڑے سیتے، جوتا سی لیتے، بکریوں کا دودھ دوہتے، جب مسجد نبوی کی تعمیر کی جارہی تھی مزدوروں کے ساتھ کام کیا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جو مسلمان دنیا سے رخصت ہوجائے اور اپنے قرض چھوڑ جائے تو مجھے اطلاع کرو میں اس کا قرض ادا کروں گا۔
آپ ہر بیمار کو تسلی دیتے اور کسی سے بدلہ نہ لیتے۔ ہبار بن الاسود جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کا قاتل تھا آپ نے اسے بھی معاف فرمادیا۔ آپ بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے، آپ نے عورتوں کو ان کا جائز اور باوقار مقام دلایا۔ آپ نے انصاف کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ایک مرتبہ ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ حضرت اسامہ کی سفارش کے باوجود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کیا۔ ناکامی اور مایوسی آپ کے قریب بھی نہ آتے تھے ہمت و حوصلہ اور سادگی و صفائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمال حاصل تھا۔ غرض اپ کا چلنا بھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا سب کچھ ہمارے لئے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس پر عمل کرکے ہم اپنی آخرت سنوارسکتے ہیں۔
__________________
Re: Central Idea and Summary
مرکزی خیال اور خلاصہ
مرکزی خیال اور خلاصہ
--------------------------------------------------------------------------------
سومناتھ کی فتح
مرکزی خیال
مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے مضمون سومناتھ کی فتحکا تانا بانا اس مرکزی خیال کے گرد بنا ہے کہ مسلمانوں میں فکری بیداری پیدا ہو وہ اپنے مسلم اسلاف کی اعلی اقدار اکی طرف توجہ دیں۔ مسلم معاشرے کی فلاح و فروغ کا راز اسی میں مضمر ہے کہ قوم میں پھر وہی جذب ایمانی اور امنگ پیدا ہوںجو تاریخ میں مسلم اسلاف و اجداد میں تھیں وہ جام شہادت نوش کرنے سے نہیں گھبراتے تھے اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ شہادت تو ایک دائمی زندگی ہے
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
خلاصہ
مولانا محمد حسین آزاد کا یہ مضمون محمود غزنوی کی مشہور فتح سومناتھ کے متعلق ہے جس نے ہندوستانی پر ۷۱ حملے کرکے سلطان کا نصب حاصل کیا۔ اس کے صرف ایک جملے نے کہ وہ تاریخ مں بت فروش نہیں بننا چاہتا بت شکن کے طور پر زندگہ رہنا چاہتا ہے۔ حقیقتاً اسے تایخ میں غیر فانی بنادیا ۔
پیش نظرمضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن محمود کا مصاحبین نے مشورہ دیا کہ سومناتھ پر حملہ کیا جائے جہاں کا مندر زروجواہر کا خزانہ ہے۔ سارے ہندوستان کے ہندو اسے اپنے مذہب کا شاہکار سمجھتے ہیں یہاں دن رات عبادت کے نام پر عیش و عشرت کے ہنگامے رہتے ہیں۔ محمود نے مصاحبین کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔ لاکھوں کی افواج لیکر وہ آگے بڑھا اور ملتان میں قیام کیا۔ اس کے بعد اس نے اجمیر کا رخ کیا۔ اجمیر پہنچ کر تارا گڑھ کا قلعہ اس کے سامنے تھا مگر وہ آغے بڑھا اور سمندر کے کنارے گجرات میں واقع عالیشان قلعہ پر جا پہنچا جو کہ سومناتھ کے نام سے مشہور ہے۔
__________________
گزرا ہوا زمانہ
مرکزی خیال
سرسید احمد خان نے سبق گزرا ہوا زمانہ کا تانہ بانہ اس مرکزی خیال کو واضح کرنے کے لئے بنایا ہے کہ دنیا میں خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی چےز نہیں، تمام چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔ صرف اور صرف انسان کے بھلائی ہی ایسی چےز ہے جو آخر دم تک قائم رہتی ہے۔ بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کا دکھاوا نہ ہو اور نہ ہی وہ اعمال غرض پر مبنی ہو
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
صدا عشق دوراں دکھاتا نہیں
خلاصہ
ایک بچہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے رات بڑی ہوناک ہے۔ بارہ بجلی کڑک رہی ہے اور وہ اپنے کمرے میں سہما ہوا بیٹھا ہے ور ماضی کی یادوں نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ اسے اپنا بچپن یاد آتا ہے جب اسے کسی چیز کی فکر نہ تھی اور اسے اشرفی کے بدلے مٹھائی اچھی لگتی تھی اور وہ سارے گھر کا تارا تھا۔
پھر وہ جوانی کا زمانہ یاد کرتا ہے۔ جب وہ حسن و جمال کے نگینوں سے آراستہ تھا۔ سڈول جسم، موتی جیسے دانت اور اس پر سرخ و سفید رنگ میں بہت وجیہہ نظر آتا تھا۔ ماں باپ خداپرستی اور نیکی کی باتیں بتاتے تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ ابھی بہت وقت ہے۔ اسے بزرگوں کی نصیحتیں زہر لگتیں۔
پھر اسے اپنا ادھیڑ پن یاد آیا جس میں نہ ہی جوانی رہتی ہے نہ ولولے اور امنگیں۔ طبیعت بدی کی نسبت نیکی کی طرف زیادہ مائل تھی وہ صوم و صلوة کا پابند ہوگیا تھا اور زکوة بھی پابندی سے ادا کرتا تھا۔
پھر وہ سوچتا ہے کہ اس کے تمام نیک اعمال صرف اس کی ذات تک محدود ہیں۔ اس نے تمام کام اپنی مفاد پرستی کی خاطرکئے ہیں۔ وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ مطلع صاف ہوچکا ہے۔ اسے آسمان کے بیچوں بیچ ایک دلہن نظر آئی۔ اس نے بوڑھے سے کہا کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں۔ اگر مجھ کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو انسانی بھلائی کے کام کرو۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگئی۔
دلہن کے جانے کے بعد وہ گزرے ہوئے زمانے پر نگاہ ڈالتا ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے کہ اس نے پچپن سال کی عمر میں کوئی بھی انسانی بھلائی کا کام نہ کیا۔ یہ سوچ کر وہ غمگین ہوجاتا ہے۔
آنکھ کھلنے پر وہ اپنی ماں کو خواب بتاتا ہے۔ ماں بیٹے کو نصیحت کرتی ہے کہ اپنے قیمتی وقت کو بوڑھے کی طرح ضائع مت کرو ورنہ بعد تم پچھتا�¶ گے۔ صرف اپنے بھلے اور مفاد کی خاطر جینا کوئی جینا نہیں۔ اصل نیکی قوم کی بھلائی کی خاطر جینے میں ہے۔
غرض سرسید نے قومی ہمدردی کے تصور کو تمثیلی مضمون کی شکل میں بڑے دل آویز اور خوبصورت انداز مےں پیش کیا ہے
اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
Question Answers سوالات اور جوابات
فہرست مضامین
* گزرا ہوا زمانہ
* سومناتھ کی فتح
* رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
* سندھ میں علم و فضل
* نظریہ پاکستان
* اردو اور علاقاءی زبانیں
* سچی ہمدردی
* توصیف کا خواب
* بنتِ بہادر شاہ
* قرطبہ کا قاضی
* چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ
* ہاسٹل میں پڑھنا
__________________
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
ہاسٹل میں پڑھنا
سوال ۱ اس سبق میں جو صاحب اپنا قصہ بیان کررہے ہیں انہوں نے پہلے سال بی - اے میں اپنے فیل ہونے کی کیا وجہ بتائی ہے؟
جواب: اس کا سبب انہوں نے یہ بتایا کہ انہیں سال اول کے امتحانی پرچوں کے ساتھ ہی انٹر کے ریاضی کے کمپارٹمنٹ کی تیاری بھی کرنا پڑی تھی اور یوں انکا وقت تین کے بجائے چار مضامین پر تقسیم ہو گیا تھا۔ اور وقت کی اس تقسیم سے انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
سوال۲ کمپارٹمنٹ کا امتحان کسے کہتے ہیں اس میں نقل کرنے کے امکان کیوں کم ہوتے ہیں؟
جواب: اگر دیگرتمام مضامین میں کامیاب ہوتے ہوئے کوئی طالبعلم ایک مضمون میں پاس ہونے والے نمبروں سے دوچار کم حاصل کرلے تو اسے یہ موقعہ ملتا ہے کہ وہ اگلی جماعت میں تو داخلہ لے لے مگر گذشتہ جماعت کے فیل شدہ مضمون میں بھی ازسرِ نو امتحان دے اور کامیاب ہو۔ کمپارٹمنٹ اسی طریقہ کارکو کہتے ہیں۔ اس امتحان مےں نقل کرنے کے امکانات اس لئے کم ہوتے ہیں کہ اس میں امتحان کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ اور امتحان دینے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اس لئے نگرانی بھی سخت کی جاتی ہے۔
سوال۳ وہ اپنے والدین کے سامنے بے خوفی کیساتھ اپنی ناکامی کی پیشن گوئی کیوں کرتے تھے؟
جواب: وہ اپنے والدین کے سامنے اپنی ناکامی کا اعلان اس لئے کردیتے تھے تاکہ جب نتیجہ آئے تو یہ لوگ ذہنی طور پر تیار ہوں اور ان کی ناکامی غیر متوقع نہ ہو کیونکہ وہ سوالات کے جوابات جس طرح لکھ کر آتے تھے انہیں معلوم تھا کہ ممتحن کبھی ہوش و حواس میں انہیں پاس نہیں کرے گا۔
سوال۴ انہوں نے اپنے والد کے سامنے ہاسٹل میں رہنے کے کیا فوائد بیان کئے؟
جواب: انہوں نے کہا کہ ہاسٹل میں ایک ایسی علمی فضا ہوتی ہے جو طالبعلم کو گھر پر میسر نہیں آتی وہاں ہر وقت بس پڑھنے سے ہی سروکار رہتا ہے اور پھر مستقل سکوت اور کسی شوروہنگامہ کا نہ ہونا پورا موقع فراہم کرتا ہے کہ طالبعلم اپنی پڑھائی میں سکون کے ساتھ مصروف رہے۔
سوال۵ وہ ہاسٹل میں کس وجہ سے رہنا چاہتے تھے؟ جواب: وہ ہاسٹل میں رہ کر گھر کی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہتے تھے اور وہاں کی اپنی دلکش اور بارونق زندگی کا لطف اٹھانا چاہتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر اس وقت وہ ہاسٹل میں نہ رہ سکے تو زندگی بھر اس کی لذت کو نہ پاسکیں گے۔
سوال۶ ہاسٹل کی زندگی سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: ہاسٹل کی زندگی طالبعلم کی پڑھائی میں بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ محنت کا طریقہ کار مناسب و موزوں ہو۔ ہاسٹل کی فضا میں یہ حالات بھی پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں کہ طلبہ میں مطابقت کا جذبہ پیدا ہو۔ لیکن آج کل ہاسٹل سیاسی اکھاڑے اور عیش و عشرت کے گہوارے نظر آتے ہیں۔ اور وہاں کی رونقیں تو زیادہ ہیں لیکن تعلیم کم ہے اس لئے آج کل کے نوجوان اتنا کچھ پڑھ لکھ جانے کے باوجود بھی نااہل ہوتے ہیں۔
__________________
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
چین میں ایک دن اردوکے طالبعلموں کے ساتھ
سوال۱ پیکنگ (بیجنگ) یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی انچارج کون تھیں ان کے بارے میں انشاءصاحب کیا فرماتے ہیں؟
جواب: پیکنگ (بیجنگ) یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی انچارج مادام شان یون تھیں۔ ان کے بارے میں انشاءجس نے لکھا ہے کہ ان کی عمر تقریباً بیس سال ہوگی۔ لیکن بڑی بردبار اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ مادام کو اردو شاعری کے مطالبے کا خاص ذوق تھا۔ چنانچہ انہوں نے ابنِ انشاءکے تعارف کے بعد بتایا کہ انہوں نے انشاءکی نظمیں پڑھی تھیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اردو کا باوقار رسالہ ”افگار“ بھی ان کے پاس آیا ہے۔
سوال۲ بیجنگ یونیورسٹی کے طلباءوطالبات نے انشاءصاحب کا استقبال کس طرح کیا؟
جواب: ان طلباوطالبات نے دورویہ کھڑے ہوکر بطور استقبال تالیاں بجائیں جواباً رسم کے مطابق مہمانوں کو بھی تالیاں بجانا پڑیں۔
سوال۳ چینی طلباءو طالبات کی اردو دانی کے متعلق انشاءصاحب نے کیا لکھا ہے؟
جواب: انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بڑی روانی سے اردو بولتے تھے بعض اٹک اٹک کر بھی بولتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے یہاں تذکیروتانیث کی غلطی نہیں ہوتی تھےں۔ اس کے علاوہ ان کا خط بہت پختہ کاتبوں جیسا تھا جس میں املا کی غلطی نہیں ہوتی تھی۔
سوال۴ بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟
جواب: انہیں اردو کی ایک عمدہ لائبریری فراہم کی گئی ہے۔ وہاں”اخبار جنگ“ بھی آتا ہے۔ اس میںسے مضامین، اداریے اور خبریں لے کر سائیکلو اسٹائل کرادی جاتی ہیں اور طلبہ میں تقسیم کردی جاتی ہےں۔
سوال ۵ چین میں اردو زبان کی مقبولیت کا اندازہ کن باتوں سے لگایا جاسکتا ہے؟
جواب: چین میں اردوزبان کی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ بیجنگ یونیورسٹی میں اردو کا ایک الگ شعبہ قائم ہے پھر اس شعبٹے میں اردو کے اخبار پہنچنے کا باقاعدہ انتظام ہے۔ یونیورسٹی کی لائبریری میں اردو کی کتابوں کا خاصا ذخیرہ موجود ہے وہاں کے طالب علم اردو کے بعض ہم عصروں کا اکر ان کی کہانیوں کے حوالہ جات سے کرتے ہیں۔ پھر وہاں کے اردوداں طبقے میں اردو تحریروں کو چینی زبان مےں ترجمہ کرنے کا شوق بھی بڑھ رہا ہے۔ انہی سب باتوں سے وہاں اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
__________________
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
قرطبہ کا قاضی
سوال۱ زبیر کون تھا؟ اس نے کیا جرم کیا تھا؟
جواب: زبیر شہر قرطبہ کے قاضی یحیی بن منصورکا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نے رقابت کے جذبے سے مغلوم ہوکر اپنے ایک مہمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
سوال۲ حلاوہ کون تھی؟ وہ اس قدر پریشان کیوں تھی؟
جواب: حلاوہ زبیر کی دایا تھی اور اس نے بچپن سے زبیر کو بڑے پیاراور محبت سے پالا تھا۔ وہ اس لئے پریشان تھی کہ زبیر کو پھانسی دی جارہی تھی۔
سوال۳ عبداللہ کو کیوں یقین تھا کہ زبیر کو پھانسی نہیں دی جاسکتی؟
جواب: عبداللہ کو زبیر کے پھانسی نہ ہونے کے متعلق اس لئے اطمینان تھا کہ وہ جانتا تھا کہ شہر قرطبہ شہر میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو یہ چاہتا ہو کہ زبیر کو پھانسی ہوجائے اور نہ عدالت کے افسرااس کے لئے تیار تھا۔ جلاد بھی شہر میں روپوش ہوگیا تھا۔ زبیر کے دوستوں نے اس امکان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہ شائد جلاد کا انتظام باہرسے کیا جائے شہر کی ناکہ بندی کرادی تھی۔
سوال۴ یہ ڈرامہ پڑھنے کے بعد آپ نے یحیی بن منصور کے بارے میں کیا رائے قائم کی۔
جواب: ڈرامہ پڑھنے کے بعد قاضییحیی بن منصور کی عظمت کدار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لئے اپنے خونی رشتے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ہی بیٹے کو قتل کے الزام میں سولی پر چڑھادیا۔
سوال۵ یہ ڈرامہ دینِ اسلام کی کس شان کو ظاہر کرتا ہے؟
جواب: یہ ڈرامہ دین اسلام میں انصاف پسندی کے اصول کو اس کے اصل انداز میں پیش کرتا ہے۔ انصاف تمام دنیاوی رشتوں، مصلحتوں اور تعلقات سے بالاتر ہوتا ہے اور اسلام کی ایسی ہی روایات نے دوست تو دوست دشمنوں کو بھی اس کے حقیقت پسندانہ اصولوں اور ضابطوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔
__________________
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
بنتِ بہادر شاہ
سوال۱ بہادر شاہ ظفر نے اپنی بیٹی کو بلا کر کیا کہا اور اس وقت ان کی کیا حالت تھی؟
جواب: بہادر شاہ ظفر نے اپنی بیٹی کو بلا بھیجا اور اس کے آنے پر پر شفقت انداز میں کہاکہ
اب ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں قسمت میں ہوا تو پھر ملےں گے حالات کا تقاضا ہے کہ تم خاوند کو لے کر کسی امان کی جگہ کی طرف نکل جا�¶ جی نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم کو خود سے جدا کروں مگر تم کو ساتھ رکھنے میں تمہاری بربادی کا خطرہ ہے۔
اس گفتگو کے دوران بہادر شاہ پر رقت طاری تھی اور وہ رعشہ سے کانپ رہا تھا۔
سوال۲ کلثوم زمانی بیگم کے رخصت ہوتے وقت بہادر شاہ ظفر نے کیا دعا مانگی؟
جواب: کلثوم زمانی بیگم کے وقتِ رخصت بہادر شاہ ظفر کے بارگاہِ الہی میں اپنے دستِ مبارک بلند کئے اور یہ عا کی
اے خدا! یہ لاوارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں یہ محلوں میں رہنے والے جنگل، ویرانوں میں جارہے ہیں اس دنیا میں ان کا کوئی سہارا نہیں۔ تیمور کے نام کی عزت رکھنا اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچانا۔ اے رب ا لعزت صرف یہی لوگ نہیں بلکہ ہندو مسلمان سب میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت آئی ہوئی ہے۔ میرے اعمال کی شامت سے ان کو رسوا نہ کرنا اور سب کو پریشانیوں سے نجات دے۔
سوال۳ قافلے میں شاہی خاندان کے کون کون سے لوگ شامل تھے؟
جواب: قافلے میں کلثوم زمانی بیگم کے علاوہ ان کے خاوند مرزا ضیاءالدین، بادشاہ کے بہنوئی مرزا عمر سلطان، نواب نور محل، بادشاہ کی سمدھن حافظ سلطان اور ساتھ میں ایک بچی زینت تھی۔
سوال۴ کورالی گا�¶ں مےں ان خانماں بربادوں پر کیا گزری؟
جواب: کورالی گا�¶ں میں پہنچنے کے بعد ان کا پہلا دن بخیریت گزرا لیکن دوسرے دن آس پاس سے سینکڑوں لوگ کورالی گاوں کو لوٹنے چلے آئے چڑیلوں کی مانند سینکڑوں عورتیں ان سے چمٹ گئیں ان لوگوں کے زیور یہاں تک کہ کپڑے بھی نہ چھوڑے۔ حملہ آور عورتوں کے پاس سے ایسی بدبو آرہی تھی کہ کلثوم زمانی بیگم اور ان کے ساتھےوں کو دم گھٹنے لگا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
توصیف کا خواب
سوال۱ توصیف سلطان اپنی شادی کے وقت یہ کیوں سوچ رہی تھی کہ اس کی شادی کا کامیاب ہونا مشکل ہے؟
جواب: توصیف سلطان اپنی شادی کے وقت اس لئے ناامید تھی کہ وہ دولت اور اچھی شکل و صورت دونوں سے محروم تھی۔ جبکہ اس کا شوہر وجیہہ اور امیر کبیر تھا۔
سوال۲ توصیف نے اپنے سسرال والوں کا دل کس طرح جیتا؟
جواب: توصیف کے پاس نہ تو اپنے خاوند کی سی ثروت تھی اور نہ ہی اس جیسا حسن و جمال۔ لیکن چونکہ وہ علم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ تھی اسی لئے اپنے حسنِ اخلاق اور محبت سے سسرال والوں کا دل جیت لیا۔
سوال۳ توصیف نے پہلے اللہ کی خوشنودی کس طرح حاصل کی؟
جواب: توصیف نے سب سے پہلے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے شوہر کی رضامندی کو اپنا مقصد بنالیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کی بھلائی کے کاموں میں بھی حصہ لیا جس کی ایک کڑی ایک شکستہ مسجد کی تعمیر تھی۔
سوال۴ غریب عورت کی دکھ بھری کہانی لکھیں؟
جواب: ایک روز توصیف اور موسی شام کے وقت ٹہلتے ٹہلتے ایک بے آباد جگہ جا نکلے جہاں ایک مسجد نہایت بوسیدہ حالت مےں نظر آئی۔ توصیف نے اسے ازسرِنو تعمیر کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ واپسی میں ایک عورت کو اپنی جھونپڑی کے پاس اپنے دوتین بچوں کے ساتھ خاموش اور اداس بیٹھے دیکھا تو توصیف پرستشِ حال کے لئے رکی۔عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر ایک زمیندار کا کاشتکار تھا پچھلے سال وہ وبا میں مرگیا اسی کی دوادارو کے سلسلے میں عورت زمیندار کے ۰۴ روپی کی مقروض ہوگئی۔ قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے بے رحم زمیندار نے اس کے بیٹے کلیم کو چھین لیا یہ کہہ کر عورت زاروقطار رونے لگی اور اس سے اپنے بچے کی بھیک مانگنے لگی۔
سوال ۵ توصیف کو غریب عورت کے دکھ کا احساس کب ہوا؟
جواب: توصیف نے اس عورت سے وعدہ کیا تھا کہ اس کا بچہ جلد ہی زمیندار سے قرضہ ادا کرکے واپس دلوادے گی لیکن وہ بھول گئی اور ایک مسجد کی تعمیر کو مکمل کروانے کا کام شروع کیا۔ اسی دوران اس کا بیٹا بیمار ہوگیا۔ اس میں ممتا کا جذبہ بیدار ہوا اور اسے یاد آیا کہ اس غریب ماں کا بچہ بھی تکلیف میں ہے تو اسے احساس ہوا کہ واقعی وہ عورت بڑی دکھی ہے۔
سوال۶ توصیف نے خواب میں کیا دیکھا؟
جواب: توصیف جب سفاک زمیندار کا قرض ادا کرکے مظلوم عورت کے بچھڑے ہوئے بیٹے کلیم کو اس سے ملوا کر گھرآئی تو رات ہوچکی تھی اس نے اپنے بیمار بیٹے کلیم کا بخار دیکھا اور اس کی زندگی کی طرف سے مایوس ہوگئی اور وہیں برابر کے بستر پر لیٹ گئی۔ اسی اثنا میں وہ نیند کی آغوش میں پہنچ گئی۔ اسے خواب میں ایک شخص نظر آیا جو اسے بلیغ انداز مےں کلیم کی صحت یابی کی خبر سنارہا تھا کہ
خدا کا اصلی گھر تو بچھڑے ہوئے کلیم کی ماں کا دل تھا تونے اس کی مامتا کی قدر کی تیرا بچہ تجھ کو مبارک ہو اٹھ توبھی اپنے کلیم سے مل۔
سوال۷ اس سبق میںجو دو نکات پیش کئے گئے ہیں اس پر روشنی ڈالیں۔
جواب: اس سبق میں جو دو نکات پیش کئے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں
دل جیتنے کی قوت مال و دولت اور حسن و جمال میں نہیں بلکہ خدمت، خلوص اور محبت میں ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے بقول جہادِ زندگانی کی اصل شمشیریں، یقینِ محکم، عملِ پیہم اور محبت فاتح عالم ہیں۔
مسجد کی تعمیر سے زیادہ بہتر کسی مظلوم کی مدد کرنا اور اسے ظالم کی قید سے رہائی دلانا ہے۔ اس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور بندے کو سکون قلب بھی نصیب ہوتا ہے۔
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
سچی ہمدردی
سوال۱ علیم نے مسکین کے کوچے میں کیا منظر دیکھا؟
جواب: علیم نے مسکین کے کوچے میں یہ دلگداز منظر دیکھا کہ ایک غریب اور خستہ حال خان صاحب مقروض ہونے کے سبب ایکبنیےکی نازل کردہ آفت میں گرفتار ہیں۔ بہت سے تماشائی ان کے گھر کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اور غریب خان صاحب کے گھر کا تمام سامان نیلام ہوجانے کے باوجود خان صاحب بنیے کی رقم نہیں لوٹا سکتے اسی لئے سپاہی ان کے گھیرے کھڑے ہیں۔
سوال۲ بنیے نے خان صاحب پر ڈگری کیوں جاری کروائی؟
جواب: خان صاحب نے بنےے سے سود پر پانچ روپے قرض لئے تھے جس میں سود شامل ہوکر سات روپے بن چکے تھے۔ بنیے نے خان صاحب سے مطالبہ کیا۔ لیکن خان صاحب غربت کی وجہ سے رقم نہ دینے پر مجبور تھے اس پر بنیے نے قرض وصول کرنے کے لئے عدالت سے حکم یعنی ڈگری جاری کرالی اور خان صاحب کو گرفتار کرنے سپاہیوں کے ہمراہ ان کے گھر جاپہنچا۔
سوال۳ خان صاحب نے تلوار کیوں نکالی؟ اور ان کی بیوی نے انہیں کیا کہہ کر روکا؟
جواب: بنیے نے خان صاحب کو بہت برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اور ان کی عزت اتروانے پر تل گیا۔ تو خان صاحب کو جوکہ بہ غیرت مند آدمی تھے غصہ آگیا۔ اور وہ اسی طیش کی حالت میں گھر میں گئے اور تلوار کو میان سے نکال کر چاہا کہ بنےے کا سرتن سے جدا کردیں۔ ان کی بیوی نے جب یہ دیکھا کہ خان صاحب نے غیض و غضب اور جلال میں بنیے کا سر تن سے جدا کرنے کے ارادے سے تلوار کھینچ لی ہے تو وہ ان کے پیروں سے لپٹ گئی اور روتی ہوئی بولی:
اگر یہی تمہارا غصہ ہے تو پہلے مجھ کو اور پھر بچوں کو مارڈالو کیونکہ تمہارے بعد ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
سوال۴ علیم کو سب سے زیادہ کس چےز نے متاثر کیا؟
جواب: علیم کو سب سے زیادہ خان صاحب کی شرافت نے متاثر کیا جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے رقم ادا کرنے سے انکار نہیں کررہے تھے بلکہ تھوڑی سی مہلت مانگ رہے تھے۔ ظالم بنیا انہیں تھوڑی سی بھی مہلت دینے کے لئے تیار نہ تھا جس کی وجہ سے سپاہی انہیں پکڑ کر لے جارہے تھے۔ علیم پر اس ظلم کا گہرا اثر ہوا اور اس نے اپنی قیمتی ٹوپی فروخت کرکے ایک شریف شہری کو بنیے کے ظلم سے بچایا۔
سوال۵ علیم نے اس خاندان کی کس طرح مدد کی؟
جواب: علیم نے خان صاحب کے خاندان کے ساتھ سچی ہمدردی کا مظاہرہ کرکے ان کی بھرپور مدد کی علیم نے اپنی کامدار ٹوپی فروخت کرکے ان کے قرض کی رقم ادا کی اور خان صاحب کو بنیے کے ظلم سے رہائی دلا کر ان کے اہل وعیال کو بے عزتی سے بچایا۔
سوال۶ بنےے کے ظلم وستم سے اس مظلوم خاندان کو نجات دلاکر علیم نے کیا محسوس کیا؟
جواب: علیم نے بنیے کے ظلم و ستم سے مظلوم خاندان کو نجات دلاکر سچی ہمدردی اور بے لوث خدمت کی ایک عمدہ مثال قائم کی اور اسے ایک ایسی مسرت حاصل ہوئی کہ جسے وہ زندگی بھر فراموش نہیں کرسکا اور ایسی مسرت اسے عمر بھر حاصل نہیں ہوئی۔
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
اردو اور علاقائی زبانیں
سوال۱ پاکستان میں کون کون سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہےں؟
جواب: پاکستان میں جو علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری اور سرائیکی زبانیں زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔
سوال۲ علاقائی زبانوں کی موجودگی میں قومی زبان کو کیا اہمیت حاصل ہے؟
جواب: قومی زبان اپنی وسعت کے لئے ان علاقائی زبانوں سے الفاظ محاورے اور ضرب الامثال حاصل کرتی ہے۔ علاقائی زبانوں کے افکار بھی اردو ادب میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور پھر بین النصوبائی رابطے کے لئے قومی زبان کی کام آتی ہے۔
سوال۳ علاقائی زبانیں قومی زبان کی اور قومی زبان علاقائی زبان کی کس طرح مدد کرتی ہےں؟
جواب: علاقائی زبانوں کے افکاروالفاظ قومی زبان کے دامن کو وسعت دیتے ہیں اور قومی زبان کے الفاظ و خیالات علاقائی زبانوں میں جگہ پاکر نہ صرف انکو وسیع کرتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لاتے ہیں۔ اسی لئے علاقائی زبانوں کی ترقی قومی زبان کی ترقی اور قومی زبان کی توانائی علاقائی زبان کی توانائی ہے۔
سوال۴ مخصوص رہن سہن کا زبان پر کیا اثر پڑتا ہے؟
جواب: ہر علاقے میں معاشرتی رہن سہن کے اپنے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔ ان کی زبانوں میں بھی ان کی معاشرت اور رہن سہن کا انداز جھلکتا ہے۔ کتنے ہی الفاظ اور محاورے وغیرہ بھی مخصوص رہن سہن کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔پھر یہ الفاظ دوسری زبانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک مخصوص معاشرت کا اثر دوسری معاشرت پر پڑتا ہے۔ اگر الفاظ کے تبادلے کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے تو زبان کمزور اور مردہ ہوجائے اور مخصوص رہن سہن کا زبان پر مثبت اثر زبان کی تازگی قائم رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔
سوال۵ اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں اس مضمون سے کیا معلومات حاصل ہوتی ہیں؟
جواب: اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کی ابتداءبھی اقوام کے باہمی میل و ملاپ اور ان کی زبانوں کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے ہوئی ہے۔ اسی لئے یہ باہمی یگانگت کا ذریعہ ہے۔
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
نظریہ پاکستان
سوال۱ نظریہ پاکستان کا کیا مفہوم ہے؟
جواب: نظریہ پاکستان کا مفہوم انسانی اخوت، مساوات، دیانت اور خداپرستی، ہمدردی اور عظمت کردار ہے۔ اس میں اسلامی زندگی کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں نظریہ�¿ پاکستان اسلامی طرز معاشرت کا آئینہ دار ہے۔
سوال۲ شاہ ولی اللہ کی تحریک کا کیا مقصد تھا؟
جواب: مسلمانوں نے دین میں غیر اسلامی رسومات کو شامل کر لیا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے ان غیر اسلامی کے خلاف آوازبلند کی۔ شاہ صاحب کی تحریک کا مقصد حضرت مجدد الف ثانی کی اس تحریک کو مزید بڑھانا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان قرآن کو ضابطہ حیات سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں اس طر ح لادینی قوتوں کے خلاف صف بستہ ہوں۔
سوال۳ سرسید احمد خان کا ہند�¶ں اور مسلمانوں دونوں قوموں کے بارے میں کیا نظریہ تھا؟
جواب: سرسید احمد خان کا ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے بارے میں یہ نظریہ تھا کہ یہ دونوں قومیں عقیدہ، مذہب، تصورِ حیات، دین، رہن سہن، اور رسم ورواج میں ہر اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کا دین جدا، ان کی تہذیب الگ اور ان کی معاشرت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا ہند�¶ں کے ساتھ کسی طور پر بھی پرخلوص اور پائیدار تعاون نہیں ہوسکتا۔
سوال۴ کانگریس کا اصل مقصد کیا تھا؟ اور مسلم لیگ کا قیام کیوں عمل میں آیا؟
جواب: ۵۸۸۱ءمیں ہند�¶ں نے کانگریس کی یہ کہہ کر بنیاد ڈالی تھی کہ یہ جماعت ہندوستان کی ساری اقوام کے لئے ہے۔ لیکن ان کا اصل مقصد انکے اپنے حقوق کا تحفظ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ان کے کاروبار سے محروم کیا اور ہندوستان کی مشترکہ زبان اردو کو ہٹا کر ہندی قائم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ کانگریس مسلمانوں کی راہ میں مشکلات پیدا کررہی ہے تو انہوں نے اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لئے ایک نئی تنظیم کی بنیاد ۶۰۹۱ءمیں ’مسلم لیگ‘ کے نام سے ڈالی۔جس کی بنیاد سرسید کے ایک رفیق نواب محسن الملک نے ڈھاکہ میں ڈالی۔
سوال۵ دنیا میں قومیت کی تشکیل کے دو بنیادی نظریات کون سے ہیں؟ جواب دنیا میں قومیت کی تشکیل کے دو نظریے ہیں:
وہ جو مغربی مفکرین نے قائم کیا۔
جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و افکار پر مبنی ہے۔
سوال۶ مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت کیوں ہے؟ جواب: مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت اس لئے ہے کہ اس کی بنیاد”لاالہ الااللہ“ پر قائم ہے اور اس قوم کا ہر فرد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے اصول زندگی پر عمل پیرا رہتا ہے اور ایک مرکز کے تابع ہوتے ہوئے ایک کتاب کو مانتا ہے اور اس کا خدا واحد ہے اور ایک ہی اس کا رسول ہے اس میں رنگ نسل، علاقہ یا زبان کا کوئی دخل نہیں۔ اس لئے یہ ایک نظریاتی مملکت ہے۔
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
سندھ میں علم و فضل
سوال۱ سندھ کے علم و فضل کے بارے میں ہملٹن نے کیا لکھا؟
جواب: سندھ میں علم و فضل کی شہادت دیتے ہوئے ہملٹن نے ۹۹۶۱ءمیں لکھا کہ
شہر ٹھٹھہ دینیات، لسانیات اور سیاسیات کی تدریس و تعلیم کے سلسلہ مےں خاص شہرت کا مالک ہے۔ وہاں چار سو کالج ہیں جن میں نونہالوں کو ان علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔
سوال۲ ٹھٹھہ کی درسگاہوں میں کون کون سے مضامین پڑھائے جاتے تھے؟
جواب: ٹھٹھہ کی درسگاہوں میں وہ تمام مضامین پڑھائے جاتے تھے جو مختلف علوم میں بنیاد کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اس جگہ دینیات، سیاسیات اور لسانیات کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔
سوال۳ فرید بکھری اپنی کتاب ”ذخیرةالقوانین“ میں کیا لکھتے ہیں؟ جواب: فرید بکھری نے اپنی کتاب ”ذخیرةالقوانین“ میں سندھ کے علماءاور شعراءکے علم و فضل کی ہمہ گیر تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
ٹھٹھہ کے اولیائ، علماءاور شعراءکی گنتی محال ہے یہاں حرف و نہو، دینیات اور شاعری عام ہے جو مختصر یہ ہے کہ ٹھٹھہ کو دوسرا عراق سمجھنا چاہئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
سوال۱ حضرت عائشہ رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں کیا فرمایا؟ جواب: کسی نے ام المومنین حضرت عائشہ رضہ سے پوچھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیسا ہے؟ تو حضرت عائشہ رضہ نے فرمایا کہ
کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا، جو کچھ قرآن میں ہے وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں۔
دوسرے الفاظ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ قرانی تعلیم کا عکس تھی۔ ان کی سیرت مبارکہ کی عملی تفسیر تھی۔ بقول اقبال
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں قرآن
سوال۲ قرآن پاک نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا شہادت دی ہے؟
جواب: قرآن پاک نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کے بارے میں شہادت دیتے ہوئے کہا کہ
ترجمہ: بے شک اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ حسن اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر فائز ہیں۔
سوال۳ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور فیاضی کا کوئی واقعہ بیان کریں؟
جواب: حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی سخاوت اور فیاضی میں گزری ہے اور یہ بات اس جملے سے واقع ہوجاتی ہے کہ انہوں نے تمام عمر کسی کے سوال پر ’نہیں‘ نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھوکے رہتے تھے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی کی شادی ہوئی ان کے پاس ولیمے کا سامان بھی نہ تھا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ عائشہ رضہ کے پاس جاو اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاو۔حالانکہ ان کے یہاں اس آٹے کے سوا شام کے لئے گھر میں کچھ نہ تھا۔
سوال۴ ہبار بن الاسود کون تھا؟ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: ہبار بن الاسود ایک طرح سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا قاتل تھا۔ فتح مکہ کے وقت جب کفار کے پاوں اکھڑ گئے تو اس نے سوچا کہ ایران بھاگ جائے۔ لیکن اس نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفودرگزر کے قصے سنے ہوئے تھے اس لئے وہ سیدھا حضوراکرم کے پاس آیا اور کہنے لگا
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں بھاگ کر ایران جانا چاہتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حم و کرم یاد آیا۔ اب میں حاضر ہوں اور میرے جن جرموں کی آپ کو خبر ملی ہے وہ درست ہیں۔
لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرمادیا۔
سوال۵ رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے مرتبے کو بلند کرنے کے لئے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: اسلام سے قبل عورتیں ہمیشہ ذلیل رہیں تھیں۔ انہیں ایک کنیز اور باندی سے زیادہ اہمیت نہ دی جاتی تھی نہ انہیں جائز حقوق نصیب تھے۔ بلکہ اکثر بیٹیاں تو پیدا ہوتے ہی دفن کردی جاتی تھیں۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بہت احسان فرمایا لوگوں کو ان کی قدرمنزلت کا احساس دلایا۔ ان کے حقوق مقرر فرمائے اور اپنے برتاو سے ظاہر فرمایا کہ یہ طبقہ حقیر نہیں ہے بلکہ عزت اور ہمدردی کے لائق ہے۔
سوال۶ قبیلہ مخزوم کی عورت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ دیا اور کیوں؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں امیر و غریب سب برابر تھے ایک دفعہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ لوگوں نے حضرت اسامہ رضہ جن کو آپ بہت چاہتے تھے ان سے سفارش کرائی۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے فرمایا کہ
تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے برباد ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب معمولی آدمی جرم کرتا تو وہ سزا پاتا۔ خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضہ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے۔
سومناتھ کی فتح
سوال۱ حسن میمندی کون تھا اور اس نے محمود غزنوی کی خدمت میں کیا عرض کیا؟
جواب: حسن میمندی کا شمار محمود غزنوی کے ذہین اور وفادارارکانِ دولت میں ہوتا تھا اور یہ ایک مخبر تھا۔ ایک دن محمود غزنوی نے ارکانِ دولت کو جمع کیا اور ان سے کسی ایسی مملکت کے بارے میں پوچھا جس کو فتح کرکے خزانے کو زروجواہر سے بھردیا جائے تو سب نے سومناتھ کا نام لیا۔ حسن میمندی نے اس جگہ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ ہے کہ
قبلہ عالم! جس جگہ سومناتھ دیوتا ہے اس مندر میں جواہرات اتنی بڑی مقدار میں موجود ہے کہ مندر کو منور رکھنے کے لئے صرف ان جواہرات کی روشنی ہی کافی ہے۔ غرض وہاں کی ہرشے زروجواہر کا شاہکار ہے۔ وہاں بطورپجاری تقریباً دوہزار برہمن موجود ہیں۔ علاوہ اس کے لونڈیاں اور گوئیے بھی وہاں کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کو تمام سہولتیں مندر سے مہیا کی گئی ہیں۔
سوال۲ ملتان سے گجرات تک کا سفر کیسا تھا اور محمود غزنوی نے اس کے لئے کیا تیاری کی؟
جواب: ملتان سے گجرات تک کا سفر بڑا دشوار تھا۔ محمود غزنوی کو معلوم تھا کہ راستے میں ایسے ریگستان اور چٹیل میدان ہیں کہ جہاں کوسوں تک پانی اور گھاس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس لئے اس نے حکم دیا کہ ہر شخص کئی کئی دن کا کھانا پانی اپنے ساتھ لے لے۔ اور سرکارِ شاہی سے بھی دوہزار اونٹ رسد کے دانے اور گھاس پاس سے لدوا کرلیے گئے۔
سوال۳ محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ کیوں نہیں کیا؟
جواب: محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ وقت کی کمی کی وجہ سے موقوف کیا کیونکہ اس کے محاصرے میں کئی دن صرف ہوجاتے اور سومناتھ پہنچنے میں دیر ہوجاتی جس کا فتح ان کا حقیقی مقصد تھا۔
سوال۴ محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے پجاریوں نے کیا کہا؟
جواب: محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے مندر کے پجاریوں نے کہا
’اے مسلمانو! تم اپنی فوج اور لشکر کے گھمنڈ پر ہمیں لوٹنے آئے ہو تمہیں یہ خبر نہیں کہ دھرم پرماتما ہمارا اس واسطے تمہیں یہاں لایا ہے کہ جو جو مندر اور شوالے تم نے ہندوستان میں توڑے ہیں ان سب کی سزا یہاں دے گا۔“
سوال۵ پہلے دن کے معرکے میں جو کچھ ہوا تحریر کریں۔
جواب: پہلے دن کے معرکے میں محمود غزنوی پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ میدان جنگ میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے جذبات میں ایک تلاطم برپا تھا۔ مسلمانوں کے اسی جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کی ابتداءکی اور ایسے تیر برسائے کہ ہندووں کو بھاگتے ہی بنی۔ تمام ہندو مندر کے اندر جاکر چھپ گئے مسلمانوں نے فصیل تک رسائی حاصل کی اور بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا۔ راجپوتوں کو بھی جیسے جوش آگیا۔ وہ بھی میدان میں آکر مسلمانوں سے دست بستہ ہوگئے۔ بڑا زوردار معرکہ ہوا لیکن کسی بھی فریق کی شکست کے کڑوے گھونٹ سے آشنائی نہ ہوسکی اور بالآخر دونوں فریق رات ہوتے ہی اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے۔
سوال۶ محمود غزنوی کے لشکری پہلے دن کے معرکے کے بعدکیا سوچ رہے تھے؟
جواب: اہلِ لشکر افتاں و خیزان حالت ہی میں یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ کہاں تو وہ جنت جیسی حسین سرزمین پر سکون سے رہ رہے تھے اور کہاں اس ریگستان اور بیابان میں مفلوک حالی کی حالت میں بے دست و پا اپنے گھروں سے ہزاروں میل کی مسافت پر پڑے ہیں جہاں اللہ کے سوا کوئی ان کا ہمدرد و غمگسار موجود نہیں۔ پس اگر اللہ کو منظور ہوا تو اسی صورت میں ہم گھربار کو واپس لوٹ سکتے ہیں۔
سوال۷ جب محمود غزنوی سومناتءکا بت توڑنے لگا تو پجاریوں نے اس سے کیا کہا؟
جواب: جب محمود غزنوی سومناتھ کے بت کو جو کہ ہند�¶ں کے لئے ان کا عظیم ترین دیوتا تھا توڑنے لگا تو پجاری اس کے قدموں میں گرگئے اور کہنے لگے کہ اس بت کو نہ توڑو اس کے بدلے میں جتنی چاہے دولت لے سکتے ہو۔
سوال۸ محمود غزنوی نے پجاریوں کو کیا جواب دیا؟
جواب: اسلام کے اس قابل فخر فرزند کو پجاریوں نے دولت کا اتنا بڑا لالچ دیا لیکن ان کی تمام آہ وزاری صدا بصحرا ثابت ہوئی اور محمود نے ان کی کوئی پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ
میرے نزدیک بت فروش نام پانے سے بت شکن ہونا بہتر ہے۔
سوال۹ محمود غزنوی نے اپنے لشکر کے جانبازوں سے مخاطب ہوکر کیا کہا؟
جواب: مسلمان اپنی ناگفتہ بہ حالت سے خاصے پریشان نظر آتے تھے ایسی حالت میں محمود غزنوی نے مسلمان افواج سے خطاب کرکے انہیں کہا کہ
دشمن نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے ہم اپنے وطن عزیز سے ہزاروں میل کی مسافت پر ہیں۔ سوائے اللہ کے ہمارا کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا حاصلہ بلند رکھنا چاہئے تاکہ ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ اگر ہم جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر مرگئے تو شہید کہلائے جانے کے مستحق ہونگے اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
سوال۰۱ محمود غزنوی کے ایمان مستحکم کا اسے کیا صلہ ملا؟
جواب: محمود غزنوی نے پجاریوں کی پیش کش کو ٹھکرا کر گویا دنیاوی زندگی کے پرتعیش لمحات سے منہ موڑ لیا اس کا صلہ اسے دنیا ہی میں مل گیا وہ اس طرح سے کہ جب محمود غزنوی نے بت توڑا تو اس میں سے بے پناہ دولت نکلی گویا دولت ہفت قلیم حاصل ہوگئی اور یہ دولت اس دولت سے کہیں زیادہ تھی جو پجاری اسے دینے پر رضامند تھے
Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
گزرا ہوا زمانہ
سوال۱ بوڑھا اپنے ماضی پر کیوں افسوس کررہا تھا؟
جواب: بوڑھا اپنے ماضی پر اس لئے افسوس کررہا تھا کہ اس نے پورے ماضی میں نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ ادھیڑ عمر میں جو کوئی نیکیاں، روزہ و نماز کے طور سے بٹوری تھیں ان میں تعلق صرف اس کی اپنی ذات اور مفاد سے تھا۔ اور نہ ہی اس نے خدمت خلق کے لئے کچھ کیا تھا۔ جبکہ سرسید کے نقط�¿ہ نظر سے دوسروں کے کام آنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔
سوال۲ آنکھ کھلنے پر لڑکے نے کیا فیصلہ کیا؟
جواب: آنکھ کھلنے پر لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو نیکی اور دوسروںکی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے گا اور رفاہِ عامہ کے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے گا۔ اس طرح وہ ’نیکی کی دلہن‘ حاصل کرسکتا ہے۔
سوال۳ مصنف نے اس مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: مصنف نے اس مضمون میں نوجوانوں کو بڑی حقیقت افروز نصیحتوں سے روشناس کروایا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ وقت کا چرنا چلتا چلا جاتا ہے اور زندگی کی ڈور اس پر لپٹتی چلی جاتی ہے اور بالاخر اس کا آخری سرا بھی کھینچ لیا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ روح اپنے قالب سے جدا ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان اپنی گزری ہوئی زندگی پر افسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے دنیا میں نیکیوں کے انبار میں سے کوئی بھی نیکی حاصل نہ کی اور آخرت کے لئے میرے پاس کوئی پونجھی نہیں ہے۔ مصنف اس لمحہ فکریہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسا وقت آنے سے پہلے ہی سنبھل جا�¶ اور انسانی بھلائی کو اپنا اولین مقصد بنالو اور آخر میں مصنف دعاگو ہیں کہ خدا کرے کوئی ایسا شخص، ایسا جوان اٹھے جو مسلمانوں کے لئے خضرِ راہ کا کام سرانجام دے سک
No comments:
Post a Comment