Monday, November 14, 2011

سوالات اور جوابات

Question Answers سوالات اور جوابات

فہرست مضامین
* گزرا ہوا زمانہ
* سومناتھ کی فتح
* رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
* سندھ میں علم و فضل
* نظریہ پاکستان
* اردو اور علاقاءی زبانیں
* سچی ہمدردی
* توصیف کا خواب
* بنتِ بہادر شاہ
* قرطبہ کا قاضی
* چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ
* ہاسٹل میں پڑھنا

__________________

      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
ہاسٹل میں پڑھنا
سوال ۱ اس سبق میں جو صاحب اپنا قصہ بیان کررہے ہیں انہوں نے پہلے سال بی - اے میں اپنے فیل ہونے کی کیا وجہ بتائی ہے؟
جواب: اس کا سبب انہوں نے یہ بتایا کہ انہیں سال اول کے امتحانی پرچوں کے ساتھ ہی انٹر کے ریاضی کے کمپارٹمنٹ کی تیاری بھی کرنا پڑی تھی اور یوں انکا وقت تین کے بجائے چار مضامین پر تقسیم ہو گیا تھا۔ اور وقت کی اس تقسیم سے انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
سوال۲ کمپارٹمنٹ کا امتحان کسے کہتے ہیں اس میں نقل کرنے کے امکان کیوں کم ہوتے ہیں؟
جواب: اگر دیگرتمام مضامین میں کامیاب ہوتے ہوئے کوئی طالبعلم ایک مضمون میں پاس ہونے والے نمبروں سے دوچار کم حاصل کرلے تو اسے یہ موقعہ ملتا ہے کہ وہ اگلی جماعت میں تو داخلہ لے لے مگر گذشتہ جماعت کے فیل شدہ مضمون میں بھی ازسرِ نو امتحان دے اور کامیاب ہو۔ کمپارٹمنٹ اسی طریقہ کارکو کہتے ہیں۔ اس امتحان مےں نقل کرنے کے امکانات اس لئے کم ہوتے ہیں کہ اس میں امتحان کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ اور امتحان دینے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اس لئے نگرانی بھی سخت کی جاتی ہے۔
سوال۳ وہ اپنے والدین کے سامنے بے خوفی کیساتھ اپنی ناکامی کی پیشن گوئی کیوں کرتے تھے؟
جواب: وہ اپنے والدین کے سامنے اپنی ناکامی کا اعلان اس لئے کردیتے تھے تاکہ جب نتیجہ آئے تو یہ لوگ ذہنی طور پر تیار ہوں اور ان کی ناکامی غیر متوقع نہ ہو کیونکہ وہ سوالات کے جوابات جس طرح لکھ کر آتے تھے انہیں معلوم تھا کہ ممتحن کبھی ہوش و حواس میں انہیں پاس نہیں کرے گا۔
سوال۴ انہوں نے اپنے والد کے سامنے ہاسٹل میں رہنے کے کیا فوائد بیان کئے؟
جواب: انہوں نے کہا کہ ہاسٹل میں ایک ایسی علمی فضا ہوتی ہے جو طالبعلم کو گھر پر میسر نہیں آتی وہاں ہر وقت بس پڑھنے سے ہی سروکار رہتا ہے اور پھر مستقل سکوت اور کسی شوروہنگامہ کا نہ ہونا پورا موقع فراہم کرتا ہے کہ طالبعلم اپنی پڑھائی میں سکون کے ساتھ مصروف رہے۔
سوال۵ وہ ہاسٹل میں کس وجہ سے رہنا چاہتے تھے؟ جواب: وہ ہاسٹل میں رہ کر گھر کی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہتے تھے اور وہاں کی اپنی دلکش اور بارونق زندگی کا لطف اٹھانا چاہتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر اس وقت وہ ہاسٹل میں نہ رہ سکے تو زندگی بھر اس کی لذت کو نہ پاسکیں گے۔
سوال۶ ہاسٹل کی زندگی سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: ہاسٹل کی زندگی طالبعلم کی پڑھائی میں بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ محنت کا طریقہ کار مناسب و موزوں ہو۔ ہاسٹل کی فضا میں یہ حالات بھی پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں کہ طلبہ میں مطابقت کا جذبہ پیدا ہو۔ لیکن آج کل ہاسٹل سیاسی اکھاڑے اور عیش و عشرت کے گہوارے نظر آتے ہیں۔ اور وہاں کی رونقیں تو زیادہ ہیں لیکن تعلیم کم ہے اس لئے آج کل کے نوجوان اتنا کچھ پڑھ لکھ جانے کے باوجود بھی نااہل ہوتے ہیں۔
__________________
 
      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
چین میں ایک دن اردوکے طالبعلموں کے ساتھ
سوال۱ پیکنگ (بیجنگ) یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی انچارج کون تھیں ان کے بارے میں انشاءصاحب کیا فرماتے ہیں؟
جواب: پیکنگ (بیجنگ) یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی انچارج مادام شان یون تھیں۔ ان کے بارے میں انشاءجس نے لکھا ہے کہ ان کی عمر تقریباً بیس سال ہوگی۔ لیکن بڑی بردبار اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ مادام کو اردو شاعری کے مطالبے کا خاص ذوق تھا۔ چنانچہ انہوں نے ابنِ انشاءکے تعارف کے بعد بتایا کہ انہوں نے انشاءکی نظمیں پڑھی تھیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اردو کا باوقار رسالہ ”افگار“ بھی ان کے پاس آیا ہے۔
سوال۲ بیجنگ یونیورسٹی کے طلباءوطالبات نے انشاءصاحب کا استقبال کس طرح کیا؟
جواب: ان طلباوطالبات نے دورویہ کھڑے ہوکر بطور استقبال تالیاں بجائیں جواباً رسم کے مطابق مہمانوں کو بھی تالیاں بجانا پڑیں۔
سوال۳ چینی طلباءو طالبات کی اردو دانی کے متعلق انشاءصاحب نے کیا لکھا ہے؟
جواب: انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بڑی روانی سے اردو بولتے تھے بعض اٹک اٹک کر بھی بولتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے یہاں تذکیروتانیث کی غلطی نہیں ہوتی تھےں۔ اس کے علاوہ ان کا خط بہت پختہ کاتبوں جیسا تھا جس میں املا کی غلطی نہیں ہوتی تھی۔
سوال۴ بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟
جواب: انہیں اردو کی ایک عمدہ لائبریری فراہم کی گئی ہے۔ وہاں”اخبار جنگ“ بھی آتا ہے۔ اس میںسے مضامین، اداریے اور خبریں لے کر سائیکلو اسٹائل کرادی جاتی ہیں اور طلبہ میں تقسیم کردی جاتی ہےں۔
سوال ۵ چین میں اردو زبان کی مقبولیت کا اندازہ کن باتوں سے لگایا جاسکتا ہے؟
جواب: چین میں اردوزبان کی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ بیجنگ یونیورسٹی میں اردو کا ایک الگ شعبہ قائم ہے پھر اس شعبٹے میں اردو کے اخبار پہنچنے کا باقاعدہ انتظام ہے۔ یونیورسٹی کی لائبریری میں اردو کی کتابوں کا خاصا ذخیرہ موجود ہے وہاں کے طالب علم اردو کے بعض ہم عصروں کا اکر ان کی کہانیوں کے حوالہ جات سے کرتے ہیں۔ پھر وہاں کے اردوداں طبقے میں اردو تحریروں کو چینی زبان مےں ترجمہ کرنے کا شوق بھی بڑھ رہا ہے۔ انہی سب باتوں سے وہاں اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
__________________

      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
قرطبہ کا قاضی
سوال۱ زبیر کون تھا؟ اس نے کیا جرم کیا تھا؟
جواب: زبیر شہر قرطبہ کے قاضی یحیی بن منصورکا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نے رقابت کے جذبے سے مغلوم ہوکر اپنے ایک مہمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
سوال۲ حلاوہ کون تھی؟ وہ اس قدر پریشان کیوں تھی؟
جواب: حلاوہ زبیر کی دایا تھی اور اس نے بچپن سے زبیر کو بڑے پیاراور محبت سے پالا تھا۔ وہ اس لئے پریشان تھی کہ زبیر کو پھانسی دی جارہی تھی۔
سوال۳ عبداللہ کو کیوں یقین تھا کہ زبیر کو پھانسی نہیں دی جاسکتی؟
جواب: عبداللہ کو زبیر کے پھانسی نہ ہونے کے متعلق اس لئے اطمینان تھا کہ وہ جانتا تھا کہ شہر قرطبہ شہر میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو یہ چاہتا ہو کہ زبیر کو پھانسی ہوجائے اور نہ عدالت کے افسرااس کے لئے تیار تھا۔ جلاد بھی شہر میں روپوش ہوگیا تھا۔ زبیر کے دوستوں نے اس امکان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہ شائد جلاد کا انتظام باہرسے کیا جائے شہر کی ناکہ بندی کرادی تھی۔
سوال۴ یہ ڈرامہ پڑھنے کے بعد آپ نے یحیی بن منصور کے بارے میں کیا رائے قائم کی۔
جواب: ڈرامہ پڑھنے کے بعد قاضییحیی بن منصور کی عظمت کدار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لئے اپنے خونی رشتے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ہی بیٹے کو قتل کے الزام میں سولی پر چڑھادیا۔
سوال۵ یہ ڈرامہ دینِ اسلام کی کس شان کو ظاہر کرتا ہے؟
جواب: یہ ڈرامہ دین اسلام میں انصاف پسندی کے اصول کو اس کے اصل انداز میں پیش کرتا ہے۔ انصاف تمام دنیاوی رشتوں، مصلحتوں اور تعلقات سے بالاتر ہوتا ہے اور اسلام کی ایسی ہی روایات نے دوست تو دوست دشمنوں کو بھی اس کے حقیقت پسندانہ اصولوں اور ضابطوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔
__________________

 
      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
بنتِ بہادر شاہ
سوال۱ بہادر شاہ ظفر نے اپنی بیٹی کو بلا کر کیا کہا اور اس وقت ان کی کیا حالت تھی؟
جواب: بہادر شاہ ظفر نے اپنی بیٹی کو بلا بھیجا اور اس کے آنے پر پر شفقت انداز میں کہاکہ
اب ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں قسمت میں ہوا تو پھر ملےں گے حالات کا تقاضا ہے کہ تم خاوند کو لے کر کسی امان کی جگہ کی طرف نکل جا�¶ جی نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم کو خود سے جدا کروں مگر تم کو ساتھ رکھنے میں تمہاری بربادی کا خطرہ ہے۔
اس گفتگو کے دوران بہادر شاہ پر رقت طاری تھی اور وہ رعشہ سے کانپ رہا تھا۔
سوال۲ کلثوم زمانی بیگم کے رخصت ہوتے وقت بہادر شاہ ظفر نے کیا دعا مانگی؟
جواب: کلثوم زمانی بیگم کے وقتِ رخصت بہادر شاہ ظفر کے بارگاہِ الہی میں اپنے دستِ مبارک بلند کئے اور یہ عا کی
اے خدا! یہ لاوارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں یہ محلوں میں رہنے والے جنگل، ویرانوں میں جارہے ہیں اس دنیا میں ان کا کوئی سہارا نہیں۔ تیمور کے نام کی عزت رکھنا اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچانا۔ اے رب ا لعزت صرف یہی لوگ نہیں بلکہ ہندو مسلمان سب میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت آئی ہوئی ہے۔ میرے اعمال کی شامت سے ان کو رسوا نہ کرنا اور سب کو پریشانیوں سے نجات دے۔
سوال۳ قافلے میں شاہی خاندان کے کون کون سے لوگ شامل تھے؟
جواب: قافلے میں کلثوم زمانی بیگم کے علاوہ ان کے خاوند مرزا ضیاءالدین، بادشاہ کے بہنوئی مرزا عمر سلطان، نواب نور محل، بادشاہ کی سمدھن حافظ سلطان اور ساتھ میں ایک بچی زینت تھی۔
سوال۴ کورالی گا�¶ں مےں ان خانماں بربادوں پر کیا گزری؟
جواب: کورالی گا�¶ں میں پہنچنے کے بعد ان کا پہلا دن بخیریت گزرا لیکن دوسرے دن آس پاس سے سینکڑوں لوگ کورالی گاوں کو لوٹنے چلے آئے چڑیلوں کی مانند سینکڑوں عورتیں ان سے چمٹ گئیں ان لوگوں کے زیور یہاں تک کہ کپڑے بھی نہ چھوڑے۔ حملہ آور عورتوں کے پاس سے ایسی بدبو آرہی تھی کہ کلثوم زمانی بیگم اور ان کے ساتھےوں کو دم گھٹنے لگا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ 
     

      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
توصیف کا خواب
سوال۱ توصیف سلطان اپنی شادی کے وقت یہ کیوں سوچ رہی تھی کہ اس کی شادی کا کامیاب ہونا مشکل ہے؟
جواب: توصیف سلطان اپنی شادی کے وقت اس لئے ناامید تھی کہ وہ دولت اور اچھی شکل و صورت دونوں سے محروم تھی۔ جبکہ اس کا شوہر وجیہہ اور امیر کبیر تھا۔
سوال۲ توصیف نے اپنے سسرال والوں کا دل کس طرح جیتا؟
جواب: توصیف کے پاس نہ تو اپنے خاوند کی سی ثروت تھی اور نہ ہی اس جیسا حسن و جمال۔ لیکن چونکہ وہ علم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ تھی اسی لئے اپنے حسنِ اخلاق اور محبت سے سسرال والوں کا دل جیت لیا۔
سوال۳ توصیف نے پہلے اللہ کی خوشنودی کس طرح حاصل کی؟
جواب: توصیف نے سب سے پہلے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے شوہر کی رضامندی کو اپنا مقصد بنالیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کی بھلائی کے کاموں میں بھی حصہ لیا جس کی ایک کڑی ایک شکستہ مسجد کی تعمیر تھی۔
سوال۴ غریب عورت کی دکھ بھری کہانی لکھیں؟
جواب: ایک روز توصیف اور موسی شام کے وقت ٹہلتے ٹہلتے ایک بے آباد جگہ جا نکلے جہاں ایک مسجد نہایت بوسیدہ حالت مےں نظر آئی۔ توصیف نے اسے ازسرِنو تعمیر کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ واپسی میں ایک عورت کو اپنی جھونپڑی کے پاس اپنے دوتین بچوں کے ساتھ خاموش اور اداس بیٹھے دیکھا تو توصیف پرستشِ حال کے لئے رکی۔عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر ایک زمیندار کا کاشتکار تھا پچھلے سال وہ وبا میں مرگیا اسی کی دوادارو کے سلسلے میں عورت زمیندار کے ۰۴ روپی کی مقروض ہوگئی۔ قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے بے رحم زمیندار نے اس کے بیٹے کلیم کو چھین لیا یہ کہہ کر عورت زاروقطار رونے لگی اور اس سے اپنے بچے کی بھیک مانگنے لگی۔
سوال ۵ توصیف کو غریب عورت کے دکھ کا احساس کب ہوا؟
جواب: توصیف نے اس عورت سے وعدہ کیا تھا کہ اس کا بچہ جلد ہی زمیندار سے قرضہ ادا کرکے واپس دلوادے گی لیکن وہ بھول گئی اور ایک مسجد کی تعمیر کو مکمل کروانے کا کام شروع کیا۔ اسی دوران اس کا بیٹا بیمار ہوگیا۔ اس میں ممتا کا جذبہ بیدار ہوا اور اسے یاد آیا کہ اس غریب ماں کا بچہ بھی تکلیف میں ہے تو اسے احساس ہوا کہ واقعی وہ عورت بڑی دکھی ہے۔
سوال۶ توصیف نے خواب میں کیا دیکھا؟
جواب: توصیف جب سفاک زمیندار کا قرض ادا کرکے مظلوم عورت کے بچھڑے ہوئے بیٹے کلیم کو اس سے ملوا کر گھرآئی تو رات ہوچکی تھی اس نے اپنے بیمار بیٹے کلیم کا بخار دیکھا اور اس کی زندگی کی طرف سے مایوس ہوگئی اور وہیں برابر کے بستر پر لیٹ گئی۔ اسی اثنا میں وہ نیند کی آغوش میں پہنچ گئی۔ اسے خواب میں ایک شخص نظر آیا جو اسے بلیغ انداز مےں کلیم کی صحت یابی کی خبر سنارہا تھا کہ
خدا کا اصلی گھر تو بچھڑے ہوئے کلیم کی ماں کا دل تھا تونے اس کی مامتا کی قدر کی تیرا بچہ تجھ کو مبارک ہو اٹھ توبھی اپنے کلیم سے مل۔
سوال۷ اس سبق میںجو دو نکات پیش کئے گئے ہیں اس پر روشنی ڈالیں۔
جواب: اس سبق میں جو دو نکات پیش کئے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں
دل جیتنے کی قوت مال و دولت اور حسن و جمال میں نہیں بلکہ خدمت، خلوص اور محبت میں ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے بقول جہادِ زندگانی کی اصل شمشیریں، یقینِ محکم، عملِ پیہم اور محبت فاتح عالم ہیں۔
مسجد کی تعمیر سے زیادہ بہتر کسی مظلوم کی مدد کرنا اور اسے ظالم کی قید سے رہائی دلانا ہے۔ اس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور بندے کو سکون قلب بھی نصیب ہوتا ہے۔

     

      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
سچی ہمدردی
سوال۱ علیم نے مسکین کے کوچے میں کیا منظر دیکھا؟
جواب: علیم نے مسکین کے کوچے میں یہ دلگداز منظر دیکھا کہ ایک غریب اور خستہ حال خان صاحب مقروض ہونے کے سبب ایکبنیےکی نازل کردہ آفت میں گرفتار ہیں۔ بہت سے تماشائی ان کے گھر کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اور غریب خان صاحب کے گھر کا تمام سامان نیلام ہوجانے کے باوجود خان صاحب بنیے کی رقم نہیں لوٹا سکتے اسی لئے سپاہی ان کے گھیرے کھڑے ہیں۔
سوال۲ بنیے نے خان صاحب پر ڈگری کیوں جاری کروائی؟
جواب: خان صاحب نے بنےے سے سود پر پانچ روپے قرض لئے تھے جس میں سود شامل ہوکر سات روپے بن چکے تھے۔ بنیے نے خان صاحب سے مطالبہ کیا۔ لیکن خان صاحب غربت کی وجہ سے رقم نہ دینے پر مجبور تھے اس پر بنیے نے قرض وصول کرنے کے لئے عدالت سے حکم یعنی ڈگری جاری کرالی اور خان صاحب کو گرفتار کرنے سپاہیوں کے ہمراہ ان کے گھر جاپہنچا۔
سوال۳ خان صاحب نے تلوار کیوں نکالی؟ اور ان کی بیوی نے انہیں کیا کہہ کر روکا؟
جواب: بنیے نے خان صاحب کو بہت برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اور ان کی عزت اتروانے پر تل گیا۔ تو خان صاحب کو جوکہ بہ غیرت مند آدمی تھے غصہ آگیا۔ اور وہ اسی طیش کی حالت میں گھر میں گئے اور تلوار کو میان سے نکال کر چاہا کہ بنےے کا سرتن سے جدا کردیں۔ ان کی بیوی نے جب یہ دیکھا کہ خان صاحب نے غیض و غضب اور جلال میں بنیے کا سر تن سے جدا کرنے کے ارادے سے تلوار کھینچ لی ہے تو وہ ان کے پیروں سے لپٹ گئی اور روتی ہوئی بولی:
اگر یہی تمہارا غصہ ہے تو پہلے مجھ کو اور پھر بچوں کو مارڈالو کیونکہ تمہارے بعد ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
سوال۴ علیم کو سب سے زیادہ کس چےز نے متاثر کیا؟
جواب: علیم کو سب سے زیادہ خان صاحب کی شرافت نے متاثر کیا جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے رقم ادا کرنے سے انکار نہیں کررہے تھے بلکہ تھوڑی سی مہلت مانگ رہے تھے۔ ظالم بنیا انہیں تھوڑی سی بھی مہلت دینے کے لئے تیار نہ تھا جس کی وجہ سے سپاہی انہیں پکڑ کر لے جارہے تھے۔ علیم پر اس ظلم کا گہرا اثر ہوا اور اس نے اپنی قیمتی ٹوپی فروخت کرکے ایک شریف شہری کو بنیے کے ظلم سے بچایا۔
سوال۵ علیم نے اس خاندان کی کس طرح مدد کی؟
جواب: علیم نے خان صاحب کے خاندان کے ساتھ سچی ہمدردی کا مظاہرہ کرکے ان کی بھرپور مدد کی علیم نے اپنی کامدار ٹوپی فروخت کرکے ان کے قرض کی رقم ادا کی اور خان صاحب کو بنیے کے ظلم سے رہائی دلا کر ان کے اہل وعیال کو بے عزتی سے بچایا۔
سوال۶ بنےے کے ظلم وستم سے اس مظلوم خاندان کو نجات دلاکر علیم نے کیا محسوس کیا؟
جواب: علیم نے بنیے کے ظلم و ستم سے مظلوم خاندان کو نجات دلاکر سچی ہمدردی اور بے لوث خدمت کی ایک عمدہ مثال قائم کی اور اسے ایک ایسی مسرت حاصل ہوئی کہ جسے وہ زندگی بھر فراموش نہیں کرسکا اور ایسی مسرت اسے عمر بھر حاصل نہیں ہوئی۔ 
     

      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
اردو اور علاقائی زبانیں
سوال۱ پاکستان میں کون کون سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہےں؟
جواب: پاکستان میں جو علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری اور سرائیکی زبانیں زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔
سوال۲ علاقائی زبانوں کی موجودگی میں قومی زبان کو کیا اہمیت حاصل ہے؟
جواب: قومی زبان اپنی وسعت کے لئے ان علاقائی زبانوں سے الفاظ محاورے اور ضرب الامثال حاصل کرتی ہے۔ علاقائی زبانوں کے افکار بھی اردو ادب میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور پھر بین النصوبائی رابطے کے لئے قومی زبان کی کام آتی ہے۔
سوال۳ علاقائی زبانیں قومی زبان کی اور قومی زبان علاقائی زبان کی کس طرح مدد کرتی ہےں؟
جواب: علاقائی زبانوں کے افکاروالفاظ قومی زبان کے دامن کو وسعت دیتے ہیں اور قومی زبان کے الفاظ و خیالات علاقائی زبانوں میں جگہ پاکر نہ صرف انکو وسیع کرتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لاتے ہیں۔ اسی لئے علاقائی زبانوں کی ترقی قومی زبان کی ترقی اور قومی زبان کی توانائی علاقائی زبان کی توانائی ہے۔
سوال۴ مخصوص رہن سہن کا زبان پر کیا اثر پڑتا ہے؟
جواب: ہر علاقے میں معاشرتی رہن سہن کے اپنے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔ ان کی زبانوں میں بھی ان کی معاشرت اور رہن سہن کا انداز جھلکتا ہے۔ کتنے ہی الفاظ اور محاورے وغیرہ بھی مخصوص رہن سہن کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔پھر یہ الفاظ دوسری زبانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک مخصوص معاشرت کا اثر دوسری معاشرت پر پڑتا ہے۔ اگر الفاظ کے تبادلے کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے تو زبان کمزور اور مردہ ہوجائے اور مخصوص رہن سہن کا زبان پر مثبت اثر زبان کی تازگی قائم رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔
سوال۵ اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں اس مضمون سے کیا معلومات حاصل ہوتی ہیں؟
جواب: اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کی ابتداءبھی اقوام کے باہمی میل و ملاپ اور ان کی زبانوں کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے ہوئی ہے۔ اسی لئے یہ باہمی یگانگت کا ذریعہ ہے۔ 
     

 
      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
نظریہ پاکستان
سوال۱ نظریہ پاکستان کا کیا مفہوم ہے؟
جواب: نظریہ پاکستان کا مفہوم انسانی اخوت، مساوات، دیانت اور خداپرستی، ہمدردی اور عظمت کردار ہے۔ اس میں اسلامی زندگی کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں نظریہ�¿ پاکستان اسلامی طرز معاشرت کا آئینہ دار ہے۔
سوال۲ شاہ ولی اللہ کی تحریک کا کیا مقصد تھا؟
جواب: مسلمانوں نے دین میں غیر اسلامی رسومات کو شامل کر لیا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے ان غیر اسلامی کے خلاف آوازبلند کی۔ شاہ صاحب کی تحریک کا مقصد حضرت مجدد الف ثانی کی اس تحریک کو مزید بڑھانا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان قرآن کو ضابطہ حیات سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں اس طر ح لادینی قوتوں کے خلاف صف بستہ ہوں۔
سوال۳ سرسید احمد خان کا ہند�¶ں اور مسلمانوں دونوں قوموں کے بارے میں کیا نظریہ تھا؟
جواب: سرسید احمد خان کا ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے بارے میں یہ نظریہ تھا کہ یہ دونوں قومیں عقیدہ، مذہب، تصورِ حیات، دین، رہن سہن، اور رسم ورواج میں ہر اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کا دین جدا، ان کی تہذیب الگ اور ان کی معاشرت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا ہند�¶ں کے ساتھ کسی طور پر بھی پرخلوص اور پائیدار تعاون نہیں ہوسکتا۔
سوال۴ کانگریس کا اصل مقصد کیا تھا؟ اور مسلم لیگ کا قیام کیوں عمل میں آیا؟
جواب: ۵۸۸۱ءمیں ہند�¶ں نے کانگریس کی یہ کہہ کر بنیاد ڈالی تھی کہ یہ جماعت ہندوستان کی ساری اقوام کے لئے ہے۔ لیکن ان کا اصل مقصد انکے اپنے حقوق کا تحفظ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ان کے کاروبار سے محروم کیا اور ہندوستان کی مشترکہ زبان اردو کو ہٹا کر ہندی قائم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ کانگریس مسلمانوں کی راہ میں مشکلات پیدا کررہی ہے تو انہوں نے اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لئے ایک نئی تنظیم کی بنیاد ۶۰۹۱ءمیں ’مسلم لیگ‘ کے نام سے ڈالی۔جس کی بنیاد سرسید کے ایک رفیق نواب محسن الملک نے ڈھاکہ میں ڈالی۔
سوال۵ دنیا میں قومیت کی تشکیل کے دو بنیادی نظریات کون سے ہیں؟ جواب دنیا میں قومیت کی تشکیل کے دو نظریے ہیں:
وہ جو مغربی مفکرین نے قائم کیا۔
جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و افکار پر مبنی ہے۔
سوال۶ مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت کیوں ہے؟ جواب: مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت اس لئے ہے کہ اس کی بنیاد”لاالہ الااللہ“ پر قائم ہے اور اس قوم کا ہر فرد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے اصول زندگی پر عمل پیرا رہتا ہے اور ایک مرکز کے تابع ہوتے ہوئے ایک کتاب کو مانتا ہے اور اس کا خدا واحد ہے اور ایک ہی اس کا رسول ہے اس میں رنگ نسل، علاقہ یا زبان کا کوئی دخل نہیں۔ اس لئے یہ ایک نظریاتی مملکت ہے۔ 
     

      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
سندھ میں علم و فضل
سوال۱ سندھ کے علم و فضل کے بارے میں ہملٹن نے کیا لکھا؟
جواب: سندھ میں علم و فضل کی شہادت دیتے ہوئے ہملٹن نے ۹۹۶۱ءمیں لکھا کہ
شہر ٹھٹھہ دینیات، لسانیات اور سیاسیات کی تدریس و تعلیم کے سلسلہ مےں خاص شہرت کا مالک ہے۔ وہاں چار سو کالج ہیں جن میں نونہالوں کو ان علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔
سوال۲ ٹھٹھہ کی درسگاہوں میں کون کون سے مضامین پڑھائے جاتے تھے؟
جواب: ٹھٹھہ کی درسگاہوں میں وہ تمام مضامین پڑھائے جاتے تھے جو مختلف علوم میں بنیاد کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اس جگہ دینیات، سیاسیات اور لسانیات کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔
سوال۳ فرید بکھری اپنی کتاب ”ذخیرةالقوانین“ میں کیا لکھتے ہیں؟ جواب: فرید بکھری نے اپنی کتاب ”ذخیرةالقوانین“ میں سندھ کے علماءاور شعراءکے علم و فضل کی ہمہ گیر تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
ٹھٹھہ کے اولیائ، علماءاور شعراءکی گنتی محال ہے یہاں حرف و نہو، دینیات اور شاعری عام ہے جو مختصر یہ ہے کہ ٹھٹھہ کو دوسرا عراق سمجھنا چاہئے۔ 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
سوال۱ حضرت عائشہ رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں کیا فرمایا؟ جواب: کسی نے ام المومنین حضرت عائشہ رضہ سے پوچھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیسا ہے؟ تو حضرت عائشہ رضہ نے فرمایا کہ
کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا، جو کچھ قرآن میں ہے وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں۔
دوسرے الفاظ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ قرانی تعلیم کا عکس تھی۔ ان کی سیرت مبارکہ کی عملی تفسیر تھی۔ بقول اقبال
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں قرآن
سوال۲ قرآن پاک نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا شہادت دی ہے؟
جواب: قرآن پاک نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کے بارے میں شہادت دیتے ہوئے کہا کہ
ترجمہ: بے شک اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ حسن اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر فائز ہیں۔
سوال۳ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور فیاضی کا کوئی واقعہ بیان کریں؟
جواب: حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی سخاوت اور فیاضی میں گزری ہے اور یہ بات اس جملے سے واقع ہوجاتی ہے کہ انہوں نے تمام عمر کسی کے سوال پر ’نہیں‘ نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھوکے رہتے تھے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی کی شادی ہوئی ان کے پاس ولیمے کا سامان بھی نہ تھا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ عائشہ رضہ کے پاس جاو اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاو۔حالانکہ ان کے یہاں اس آٹے کے سوا شام کے لئے گھر میں کچھ نہ تھا۔
سوال۴ ہبار بن الاسود کون تھا؟ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: ہبار بن الاسود ایک طرح سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا قاتل تھا۔ فتح مکہ کے وقت جب کفار کے پاوں اکھڑ گئے تو اس نے سوچا کہ ایران بھاگ جائے۔ لیکن اس نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفودرگزر کے قصے سنے ہوئے تھے اس لئے وہ سیدھا حضوراکرم کے پاس آیا اور کہنے لگا
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں بھاگ کر ایران جانا چاہتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حم و کرم یاد آیا۔ اب میں حاضر ہوں اور میرے جن جرموں کی آپ کو خبر ملی ہے وہ درست ہیں۔
لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرمادیا۔
سوال۵ رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے مرتبے کو بلند کرنے کے لئے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: اسلام سے قبل عورتیں ہمیشہ ذلیل رہیں تھیں۔ انہیں ایک کنیز اور باندی سے زیادہ اہمیت نہ دی جاتی تھی نہ انہیں جائز حقوق نصیب تھے۔ بلکہ اکثر بیٹیاں تو پیدا ہوتے ہی دفن کردی جاتی تھیں۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بہت احسان فرمایا لوگوں کو ان کی قدرمنزلت کا احساس دلایا۔ ان کے حقوق مقرر فرمائے اور اپنے برتاو سے ظاہر فرمایا کہ یہ طبقہ حقیر نہیں ہے بلکہ عزت اور ہمدردی کے لائق ہے۔
سوال۶ قبیلہ مخزوم کی عورت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ دیا اور کیوں؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں امیر و غریب سب برابر تھے ایک دفعہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ لوگوں نے حضرت اسامہ رضہ جن کو آپ بہت چاہتے تھے ان سے سفارش کرائی۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے فرمایا کہ
تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے برباد ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب معمولی آدمی جرم کرتا تو وہ سزا پاتا۔ خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضہ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے۔
سومناتھ کی فتح
سوال۱ حسن میمندی کون تھا اور اس نے محمود غزنوی کی خدمت میں کیا عرض کیا؟
جواب: حسن میمندی کا شمار محمود غزنوی کے ذہین اور وفادارارکانِ دولت میں ہوتا تھا اور یہ ایک مخبر تھا۔ ایک دن محمود غزنوی نے ارکانِ دولت کو جمع کیا اور ان سے کسی ایسی مملکت کے بارے میں پوچھا جس کو فتح کرکے خزانے کو زروجواہر سے بھردیا جائے تو سب نے سومناتھ کا نام لیا۔ حسن میمندی نے اس جگہ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ ہے کہ
قبلہ عالم! جس جگہ سومناتھ دیوتا ہے اس مندر میں جواہرات اتنی بڑی مقدار میں موجود ہے کہ مندر کو منور رکھنے کے لئے صرف ان جواہرات کی روشنی ہی کافی ہے۔ غرض وہاں کی ہرشے زروجواہر کا شاہکار ہے۔ وہاں بطورپجاری تقریباً دوہزار برہمن موجود ہیں۔ علاوہ اس کے لونڈیاں اور گوئیے بھی وہاں کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کو تمام سہولتیں مندر سے مہیا کی گئی ہیں۔
سوال۲ ملتان سے گجرات تک کا سفر کیسا تھا اور محمود غزنوی نے اس کے لئے کیا تیاری کی؟
جواب: ملتان سے گجرات تک کا سفر بڑا دشوار تھا۔ محمود غزنوی کو معلوم تھا کہ راستے میں ایسے ریگستان اور چٹیل میدان ہیں کہ جہاں کوسوں تک پانی اور گھاس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس لئے اس نے حکم دیا کہ ہر شخص کئی کئی دن کا کھانا پانی اپنے ساتھ لے لے۔ اور سرکارِ شاہی سے بھی دوہزار اونٹ رسد کے دانے اور گھاس پاس سے لدوا کرلیے گئے۔
سوال۳ محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ کیوں نہیں کیا؟
جواب: محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ وقت کی کمی کی وجہ سے موقوف کیا کیونکہ اس کے محاصرے میں کئی دن صرف ہوجاتے اور سومناتھ پہنچنے میں دیر ہوجاتی جس کا فتح ان کا حقیقی مقصد تھا۔
سوال۴ محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے پجاریوں نے کیا کہا؟
جواب: محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے مندر کے پجاریوں نے کہا
’اے مسلمانو! تم اپنی فوج اور لشکر کے گھمنڈ پر ہمیں لوٹنے آئے ہو تمہیں یہ خبر نہیں کہ دھرم پرماتما ہمارا اس واسطے تمہیں یہاں لایا ہے کہ جو جو مندر اور شوالے تم نے ہندوستان میں توڑے ہیں ان سب کی سزا یہاں دے گا۔“
سوال۵ پہلے دن کے معرکے میں جو کچھ ہوا تحریر کریں۔
جواب: پہلے دن کے معرکے میں محمود غزنوی پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ میدان جنگ میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے جذبات میں ایک تلاطم برپا تھا۔ مسلمانوں کے اسی جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کی ابتداءکی اور ایسے تیر برسائے کہ ہندووں کو بھاگتے ہی بنی۔ تمام ہندو مندر کے اندر جاکر چھپ گئے مسلمانوں نے فصیل تک رسائی حاصل کی اور بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا۔ راجپوتوں کو بھی جیسے جوش آگیا۔ وہ بھی میدان میں آکر مسلمانوں سے دست بستہ ہوگئے۔ بڑا زوردار معرکہ ہوا لیکن کسی بھی فریق کی شکست کے کڑوے گھونٹ سے آشنائی نہ ہوسکی اور بالآخر دونوں فریق رات ہوتے ہی اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے۔
سوال۶ محمود غزنوی کے لشکری پہلے دن کے معرکے کے بعدکیا سوچ رہے تھے؟
جواب: اہلِ لشکر افتاں و خیزان حالت ہی میں یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ کہاں تو وہ جنت جیسی حسین سرزمین پر سکون سے رہ رہے تھے اور کہاں اس ریگستان اور بیابان میں مفلوک حالی کی حالت میں بے دست و پا اپنے گھروں سے ہزاروں میل کی مسافت پر پڑے ہیں جہاں اللہ کے سوا کوئی ان کا ہمدرد و غمگسار موجود نہیں۔ پس اگر اللہ کو منظور ہوا تو اسی صورت میں ہم گھربار کو واپس لوٹ سکتے ہیں۔
سوال۷ جب محمود غزنوی سومناتءکا بت توڑنے لگا تو پجاریوں نے اس سے کیا کہا؟
جواب: جب محمود غزنوی سومناتھ کے بت کو جو کہ ہند�¶ں کے لئے ان کا عظیم ترین دیوتا تھا توڑنے لگا تو پجاری اس کے قدموں میں گرگئے اور کہنے لگے کہ اس بت کو نہ توڑو اس کے بدلے میں جتنی چاہے دولت لے سکتے ہو۔
سوال۸ محمود غزنوی نے پجاریوں کو کیا جواب دیا؟
جواب: اسلام کے اس قابل فخر فرزند کو پجاریوں نے دولت کا اتنا بڑا لالچ دیا لیکن ان کی تمام آہ وزاری صدا بصحرا ثابت ہوئی اور محمود نے ان کی کوئی پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ
میرے نزدیک بت فروش نام پانے سے بت شکن ہونا بہتر ہے۔
سوال۹ محمود غزنوی نے اپنے لشکر کے جانبازوں سے مخاطب ہوکر کیا کہا؟
جواب: مسلمان اپنی ناگفتہ بہ حالت سے خاصے پریشان نظر آتے تھے ایسی حالت میں محمود غزنوی نے مسلمان افواج سے خطاب کرکے انہیں کہا کہ
دشمن نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے ہم اپنے وطن عزیز سے ہزاروں میل کی مسافت پر ہیں۔ سوائے اللہ کے ہمارا کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا حاصلہ بلند رکھنا چاہئے تاکہ ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ اگر ہم جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر مرگئے تو شہید کہلائے جانے کے مستحق ہونگے اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
سوال۰۱ محمود غزنوی کے ایمان مستحکم کا اسے کیا صلہ ملا؟
جواب: محمود غزنوی نے پجاریوں کی پیش کش کو ٹھکرا کر گویا دنیاوی زندگی کے پرتعیش لمحات سے منہ موڑ لیا اس کا صلہ اسے دنیا ہی میں مل گیا وہ اس طرح سے کہ جب محمود غزنوی نے بت توڑا تو اس میں سے بے پناہ دولت نکلی گویا دولت ہفت قلیم حاصل ہوگئی اور یہ دولت اس دولت سے کہیں زیادہ تھی جو پجاری اسے دینے پر رضامند تھے 
     
 
      Re: Question Answers سوالات اور جوابات
--------------------------------------------------------------------------------
گزرا ہوا زمانہ
سوال۱ بوڑھا اپنے ماضی پر کیوں افسوس کررہا تھا؟
جواب: بوڑھا اپنے ماضی پر اس لئے افسوس کررہا تھا کہ اس نے پورے ماضی میں نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ ادھیڑ عمر میں جو کوئی نیکیاں، روزہ و نماز کے طور سے بٹوری تھیں ان میں تعلق صرف اس کی اپنی ذات اور مفاد سے تھا۔ اور نہ ہی اس نے خدمت خلق کے لئے کچھ کیا تھا۔ جبکہ سرسید کے نقط�¿ہ نظر سے دوسروں کے کام آنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔
سوال۲ آنکھ کھلنے پر لڑکے نے کیا فیصلہ کیا؟
جواب: آنکھ کھلنے پر لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو نیکی اور دوسروںکی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے گا اور رفاہِ عامہ کے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے گا۔ اس طرح وہ ’نیکی کی دلہن‘ حاصل کرسکتا ہے۔
سوال۳ مصنف نے اس مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: مصنف نے اس مضمون میں نوجوانوں کو بڑی حقیقت افروز نصیحتوں سے روشناس کروایا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ وقت کا چرنا چلتا چلا جاتا ہے اور زندگی کی ڈور اس پر لپٹتی چلی جاتی ہے اور بالاخر اس کا آخری سرا بھی کھینچ لیا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ روح اپنے قالب سے جدا ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان اپنی گزری ہوئی زندگی پر افسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے دنیا میں نیکیوں کے انبار میں سے کوئی بھی نیکی حاصل نہ کی اور آخرت کے لئے میرے پاس کوئی پونجھی نہیں ہے۔ مصنف اس لمحہ فکریہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسا وقت آنے سے پہلے ہی سنبھل جا�¶ اور انسانی بھلائی کو اپنا اولین مقصد بنالو اور آخر میں مصنف دعاگو ہیں کہ خدا کرے کوئی ایسا شخص، ایسا جوان اٹھے جو مسلمانوں کے لئے خضرِ راہ کا کام سرانجام دے سک





























No comments:

Post a Comment